مدھیہ پردیش کے بڑوانی ضلع کے سیندھوا میں رام نومی کے موقع پر ہوئے فرقہ وارانہ تصادم میں بائیک جلانے کے الزام میں تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ واقعے کے اگلے ہی روز ان میں سے ایک کے گھر کو انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیرات قرار دے کر توڑ دیا۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ تینوں ملزمین قتل کی کوشش کے ایک مقدمے میں مارچ سے جیل میں بند ہیں۔
نئی دہلی: مدھیہ پردیش میں رام نومی کے موقع پر فرقہ وارانہ تشدد کے معاملات میں جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے، ان میں سے تین گزشتہ مارچ کے آغاز سے ہی جیل میں بند ہیں۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، تینوں قتل کی کوشش کے ایک معاملے میں مارچ سے جیل میں بند ہیں، اس کے باوجود پولیس نے ان کے خلاف مدھیہ پردیش کے بڑوانی ضلع میں فرقہ وارانہ تصادم کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا ہے۔ جن میں سے ایک کے گھر کو انتظامیہ نے غیر قانونی تعمیر قرار دے کر توڑ دیا ہے۔
تینوں پر 10 اپریل کو بڑوانی ضلع کے سیندھوا میں ایک بائیک کو آگ لگانے کا الزام ہے، جبکہ وہ اس دوران جیل میں بندتھے۔
بتا دیں کہ رام نومی کے دن سیندھوا کے جوگواڑہ روڈ پر پتھراؤ ہوا تھا، جس میں ایک تھانہ انچارج اور پانچ لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
پولیس نے بتایا کہ تینوں قیدیوں کو ملزم بنانے میں چوک ہوئی ہے کیونکہ شکایت کنندہ کے الزامات کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سینئر پولیس افسر منوہر سنگھ نے کہا کہ ہم معاملے کی تحقیقات کریں گے اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے معلومات حاصل کریں گے۔
تینوں میں سے ایک شہباز کے گھر کو مبینہ طور پر تشدد کے بعد 11 اپریل کو بلڈوزر چلا کر گرا دیا گیا تھا۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ پولیس نے انہیں کوئی نوٹس تک نہیں دیا۔
قابل ذکر ہے کہ سیندھوا قصبے کی ایک خاتون نے جمعہ کو دعویٰ کیا تھا کہ رام نومی کے دن تشدد سے متعلق ایک معاملے میں اس کے بیٹے کو ملزم بنائے جانے کے بعد حکام نے اس کا گھر گرا دیا جبکہ اس وقت وہ جیل میں بند تھا۔
پولیس حکام نے اعتراف کیا کہ ملزم شہباز 10 اپریل کو جیل میں تھا لیکن اس کے غیر قانونی مکان کو مسمار کرنے کو صحیح ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ علاقے کااشتہاری مجرم ہے۔
سکینہ نامی خاتون نے صحافیوں کو بتایا کہ جب رام نومی کے موقع پر بڑوانی ضلع کے سیندھوا میں فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا تو اس وقت ا س کا بیٹا جیل میں بندتھا۔
خاتون نے صحافیوں کو بتایا کہ فسادات کے حوالے سے ایف آئی آر میں اس کا نام غلطی سے درج کیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود مقامی حکام نے تشدد میں ملوث افراد کی جانب سے تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جوگواڑہ روڈ پر واقع اس کا مکان بھی توڑدیا۔
مقامی پولیس حکام نے اعتراف کیا کہ شہباز جیل میں تھا اور 10 اپریل کے فسادات سے متعلق شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
بڑوانی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ دیپک کمار شکلا نے کہا کہ یہ تحقیقات کا معاملہ ہے کہ ایف آئی آر میں شہباز کا نام کیسے آیا۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر پولیس شکایت کی بنیاد پر مقدمہ درج کرتی ہے لیکن اگر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غلط نام درج کیا گیا ہے تو اس کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔
تاہم، شکلا نے شہباز کے گھر کو مسمار کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں شہباز کے خلاف این ایس اے کے تحت کارروائی کی تجویز دی گئی تھی اور اس حوالے سے حکم نامہ بھی جاری کیا گیا ہے۔
ایس پی نے کہا کہ وہ علاقے کا اشتہاری مجرم ہے اور اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل) اور 307 (قتل کی کوشش) کے تحت مقدمات درج ہیں۔
بتادیں کہ مدھیہ پردیش میں مسلم مذہبی رہنماؤں نے اس ہفتے کے شروع میں الزام لگایا تھا کہ رام نومی کے تشدد کے بعد حکام کی طرف سے کمیونٹی کے افراد کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور کچھ معاملات میں بغیر کسی کارروائی کے مکانات کو توڑ دیا گیا ہے۔
ایسا ہی ایک معاملہ کھرگون میں سامنے آیا، جہاں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنائے گئے گھر کو بھی انتظامیہ نے غیر قانونی قرار دے کر منہدم کردیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)