بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے اہل خانہ کے قتل کے 11 قصورواروں کی گجرات حکومت کی جانب سے سزا معافی اور رہائی کو رد کرنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیچھے کچھ خواتین ہیں جو بلقیس کو انصاف دلانے کے لیے آگےآئیں۔
نئی دہلی: آزادی کے 75 سال کا جشن مناتے ہوئے مودی نے لال قلعہ سے ‘ناری شکتی’ کی اپیل کی تھی اور ‘ہر اس طرز عمل، ثقافت کو ختم کرنے کی بات کہی تھی جو خواتین کو کمتر دکھاتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہیں‘۔
اسی وقت، 2002 کے گجرات فسادات کے دوران حاملہ بلقیس بانو اور ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ گینگ ریپ کرنے اور ان میں سے کم از کم 14 افرادکو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے 11 مجرموں کو گودھرا سب جیل سےسزا معافی کے بعد رہا کر دیا گیا تھا ۔
گجرات حکومت کی اس قبل از وقت رہائی کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کرنے والے عرضی گزاروں کو وزیر اعظم کی یوم آزادی کی تقریر نے ہی بلقیس کی حمایت میں آگے آنے پر مجبور کیا تھا۔
سی پی آئی (ایم) کی رہنما اور کارکن سبھاشنی علی نے دی وائر کو بتایا،’15 اگست کو جب وزیر اعظم خواتین کے تحفظ اور ان کے احترام کی بات کر رہے تھے، گجرات حکومت نے ان (مجرموں) کے لیے معافی کا حکم دیا اور انھیں رہا کر دیا ۔ پھر میں نے سنا کہ بلقیس نے ایک بیان دیا ہے، ‘کیا یہ عدل و انصاف کا خاتمہ ہے؟’ اس نے حقیقت میں مجھے اور میرے جیسے کئی لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا جنہوں نے سوچا، ‘ہمارے یہاں رہنے کا کیا فائدہ؟’
سبھاشنی علی، سابق پروفیسر روپ ریکھا ورما اور صحافی ریوتی لال نے مشترکہ طور پر گجرات حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔
علی نے کہا، ‘ہم یہ سوچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور یہ بہت خوش قسمتی والی بات رہی کہ کپل سبل اور اپرنا بھٹ اور دیگر وکیل آگے آئے۔’
بتا دیں کہ 8 جنوری کو سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے رہائی کے آرڈر کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کے پاس اس طرح سے مجرموں کو رہا کرنے کے اختیارات نہیں ہیں اور ہدایت کی کہ وہ دو ہفتے کے اندر جیل لوٹ جائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ گجرات حکومت نے مجرموں کے ساتھ ‘ملی بھگت سے کام کیا۔’
جسٹس بی وی ناگ رتنا اور جسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ جسٹس اجئے رستوگی اور وکرم ناتھ کی بنچ کی جانب سے 13مئی 2022 کو سنایا گیا فیصلہ، جس میں گجرات حکومت کو سزا معافی پر غور کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، ‘غیر قانونی’ ہے کیونکہ یہ ‘عدالت کے ساتھ فراڈ کرکے’ حاصل کیا گیا تھا۔
جب سزا معافی کے فیصلے کی خبر آئی تو اس وقت لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق پروفیسر روپ ریکھا ورما دہلی میں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا بیان ‘ملک کے ساتھ ایک مذاق’ تھا۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘وزیراعظم، جو اپنی یوم آزادی کی تقریر میں خواتین کے خلاف تشدد پر گریہ و زاری کر رہے تھے، انہوں نے پہلے ہی سزا معافی کی اجازت دے دی تھی ۔ یہ ملک کے ساتھ ایک فحش مذاق تھا۔’
ورما نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنے کچھ دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا اور قانونی متبادل تلاش کرنے کا ایک ‘اجتماعی خیال’ سامنے آیا۔’
انہوں نے کہا، ‘اگرچہ اس وقت تک ہمارے پاس ایسی کافی مثالیں موجود تھیں کہ ہم زیادہ امید کے ساتھ عدالتوں کی طرف نہیں دیکھ سکتے تھے، لیکن سپریم کورٹ میں پٹیشن کے علاوہ کوئی دوسرا دروازہ دستک دینے کے لیے نہیں تھا۔’
صحافی ریوتی لال اس معاملے میں عرضی گزار بننے کے لیے اس وقت آگے آئیں جب انہیں بتایا گیا کہ وہ تیسری خاتون عرضی گزار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا، ‘وہ ایک تیسری خاتون عرضی گزار کی تلاش میں سرگرداں تھے جس کے پاس اس معاملے میں عدالت میں کھڑی ہونے کا کچھ اختیار ہو۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں تیسری درخواست گزار بننا چاہوں گی؟ میں نے ‘اناٹومی آف ہیٹ’ کے عنوان سے کتاب لکھی تھی جو گجرات فسادات پر مبنی ہے۔ اس معاملے سے میرا گہرا تعلق رہا ہے،اس لیے میں راضی ہوگئی۔’
عرضی گزاروں نے کہا کہ عرضی داخل کرنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وکیل اندرا جئے سنگھ کے توسط سے ترنمول کانگریس کی اس وقت کی ایم پی مہوا موئترا نے ایک اور پی آئی ایل دائر کی ہے۔ اس کے بعد ستمبر 2022 میں سابق آئی پی ایس افسر میرا چڈھا بورونکر نے بھی ایک اور عرضی دائر کی۔ ان کے گروپ میں عرضی گزار جگدیپ چھوکر اور مدھو بھنڈاری بھی شامل تھے۔
بورونکر نے کہا کہ جب انہیں احساس ہوا کہ بانو نے خو دسے سزا معافی کے احکامات کو چیلنج نہیں کیا ہے ، تو انہوں نے ‘آگے آنے’ اور مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم بعد میں بانو نے بھی عدالت سے رجوع کیا۔
‘بلقیس بانو کو آگے کیوں آنا پڑا؟’
بانو نے نومبر 2022 میں سزا معافی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ۔ انہوں نے یہ فیصلہ ایک مجرم کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست کے بعد لیا تھا، جس میں ان عرضیوں کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عرضی گزاروں کے پاس معاملے میں عدالت آنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور وہ اس معاملے میں ‘پوری طرح سے اجنبی’ ہیں۔
دو دہائیوں سے بانو کی وکیل رہیں شوبھا گپتا نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں ان درخواستوں کے جواز کو چیلنج کیے جانے کے بعد بانو کو عرضی گزار بننا پڑا تھا۔
گپتا نے کہا،’میں ذاتی طور پر بہت صاف تھی، اکیلے انہیں ہی کیوں آگے آنا چاہیے؟’ یہ کوئی شخصی جرم نہیں تھا۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم تھا اور وحشیانہ نوعیت کا جرم تھا۔ یہ فیصلہ معاشرے کو کرنا ہے۔ اس لیے وہ شروع میں اس معاملے میں نہیں آئیں اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے فیصلہ کرنے میں پورا وقت لیا۔ اس دوران کچھ اچھے لوگوں نے معافی کے فیصلے کو چیلنج کیا اور عدالت نے 25 اگست (2022) کوپی آئی ایل پر نوٹس جاری کیا۔’
انہوں نے کہا کہ بانو کے لیے یہ ایک ‘سخت دھچکا’ تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے خفیہ طریقے سے ایسا ہو سکتا ہے۔ اچانک آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ریپسٹ کا استقبال کیا جا رہا ہے اور وہ آزادی کےساتھ گھوم رہے ہیں ۔
گیارہ مجرموں کو اب عدالت کی جانب سے جیل واپس جانے کی ہدایت کے بعد موئترا کی طرف سے پیروی کرنے والی وکیل اندرا جئے سنگھ نے کہا کہ یہ فیصلہ غیر معمولی ہے کیونکہ سپریم کورٹ ‘بہت کم ہی اپنے فیصلے کو کالعدم قرار دیتی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ فیصلہ انصاف کے سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
وہیں، پروفیسر ورما نے کہا کہ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ پر بھروسہ کم ہوگیا ہے۔ انہوں نےکہا’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ جج ایسے ہیں جو سرکاری ملازمین کی حیثیت سے کام نہیں کرتے، بلکہ وہ کرتے ہیں جو ان سے توقع کی جاتی ہے۔’
صحافی لال نے کہا کہ یہ فیصلہ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر آیا ہے۔
علی نے کہا کہ اس فیصلے کے پیچھے بڑا پیغام اسے ‘خواتین کے مسئلے’ سے آگے جا کردیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘براہ کرم اسے عورت کی لڑائی کے طور پر نہ دیکھیں۔ یہ اس ملک کو سنگین ناانصافی اور آئین کو ہر طرح سے منواسمرتی سےتبدیل کیے جانے سے بچانے کی لڑائی ہے۔’
بورونکر نے کہا کہ اگرچہ بانو کو انصاف دلانے کے لیے خواتین کے ایک بڑے گروپ کی ضرورت پڑی، لیکن یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ ‘حکومت اپنے طرز عمل میں متعصب نہیں ہو سکتی۔’
تاہم، سوموار کو بانو نے فیصلے کے بعد اپنے پہلے عوامی بیان میں کہا کہ ‘وہ اب سانس لے پا رہی ہیں۔’
گپتا نے کہا کہ 2002 کے فسادات کے بعد جب انہیں قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے کیس میں وکیل کے طور پر شامل کیا تھا، تب سے انہوں نے اس کیس میں ایک پیسہ بھی فیس نہیں لی ہے۔
وہ کہتی ہیں، ‘اگر آپ کے پاس وکیل کے طور پر صلاحیت ہے تو آپ معاشرے کے لیے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ اس وقت مجھے اس پیشے میں صرف پانچ سال ہی ہوئے تھے۔ این ایچ آر سی نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے پاس وکلاء کو ادائیگی کے لیے کافی فنڈز ہیں لیکن میں نے کہا کہ میں اس کیس میں کاغذی کارروائی تک کے پیسے نہیں لوں گی۔ میں اس کے ساتھ کھڑی رہی کیونکہ ہم اسے اور معاشرے کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں اور یہ کسی اکیلے کی لڑائی نہیں ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔