ممکری کے واقعے پر اپنی جاٹ پہچان کا حوالہ دینے والے نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ جاٹ برادری کی دو حالیہ تحریکوں – زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج اور پہلوانوں کے مظاہرہ کے دوران خاموش تماشائی تھے۔
نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ اور پس منظر میں کسانوں کا مظاہرہ۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر)
اس سال فروری میں وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی-ممبئی ایکسپریس وے کے پہلے حصے کا
افتتاح کیا، جس نے مختلف مقامات سے دہلی پہنچنے میں لگنے والے وقت کو کم کر دیا۔ فوڈ کورٹ اور آٹھ لین والا نیا اور شاندار ہائی وے اب ان لوگوں کے لیے ایک نیا راستہ بن گیا ہے جو پہلے نیشنل ہائی وے (این ایچ 48) کے ذریعے دہلی پہنچتے تھے۔
نئے ہائی وے کے گلیمر سے دور این ایچ 48ایک ایسی تحریک کی یادگار ہے، جسے موجودہ حکومت بھولنا چاہے گی – تین زرعی قوانین کے خلاف کسان تنظیموں کی جانب سے تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والا
احتجاجی مظاہرہ، جو مرکزی حکومت کے ذریعے زرعی قوانین کی
واپسی کے ساتھ ہی ختم ہوا تھا۔ان قوانین کو واپس لیا جانا ایک کمیاب مثال ہے، جب عوامی دباؤ کی وجہ سے مودی حکومت کو اپنا رخ بدلنا پڑا تھا۔
جئے پور-دہلی این ایچ 48ہائی وے سے گزرتے ہوئے ہریانہ میں داخل ہونے والا پوائنٹ، جسے شاہجہاں پور بارڈر کہا جاتا ہے، پر لوہے کی سلاخوں پر مٹی کے برتن لگے نظر آتے ہیں۔ یہ بارڈر مرکزی حکومت کی طرف سے لائے گئے تین قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ کے مرکزی مقامات میں سے ایک تھا۔
احتجاج کے دوران ‘اینٹی نیشنل،
خالصتانی اور ‘انتشار پھیلانے والے’ کہے جانے کے باوجود ، بہت سے کسان، جن میں سے متعدد جاٹ برادری سے تھے، اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے دن پرانے کینوس کے خیموں کے نیچے گزارا، عارضی کچن میں کھانا بنایا اور کھایا اور پولیس کا سامنا کیا، جو مسلسل سڑک کو خالی کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔
مٹی کے برتنوں میں ملک بھر کے دیہاتوں اور کھیتوں کی مٹی استعمال ہوتی ہے۔ مارچ 2021 میں، جب میں کسان تنظیموں کے ساتھ تھا اور جنوبی راجستھان میں بانسواڑہ سے شاہجہاں پور بارڈر تک قریب 650 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کیا، تومیں نے کسانوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی دیکھی، دراصل یہ اس خوف کے بارے میں بتا رہی تھی، جو
تین زرعی قوانین کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوا تھا ۔ انہوں نے ان برتنوں میں مٹی جمع کرنے کے عمل کو ‘مٹی ستیہ گرہ’ کہا – ستیہ گرہ یعنی گاندھیائی اصولوں پر مبنی تحریک کا ایک غیر متشدد طریقہ۔
گزشتہ منگل (19 دسمبر) کو جب میں نے راجیہ سبھا میں نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ کا وہ
تبصرہ سنا، جس میں انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کے رہنما کلیان بنرجی کی ممکری والے ایک ویڈیو کی مذمت کی اور ایک کسان اور جاٹ کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کی، تو میں شاہجہاں پور بارڈر والے احتجاجی مظاہرہ میں شریک ساتھی کسانوں کے بارے میں سوچنے سے خود کو روک نہیں پایا۔وہ کسان، جنہیں مرکزی دھارے کے میڈیا کےمذاق اڑانے اور ذلیل کیے کے باوجود، دھن کھڑ، جو اس وقت مغربی بنگال کے گورنر تھے، جیسے لوگوں سے بہت کم حمایت حاصل ہوئی تھی۔
اور پھر بھی، وکٹم کارڈ کھیلنا تو دور کی بات، انہوں نے تین زرعی قوانین کے خلاف اپنا ستیہ گرہ تب تک جاری رکھا جب تک کہ وہ واپس نہیں لے لیا گیا۔
غصے میں دھن کھڑ نے
کہا کہ ان کے کسان اور جاٹ پس منظر کو نشانہ بنائے جانے سے وہ ذاتی طور پرمجروح ہوئے ہیں۔
پارلیامنٹ میں کانگریس لیڈر اور راجیہ سبھا کے رکن پی چدمبرم کو مخاطب کرتے ہوئے
دھن کھڑ کہتے ہیں، ‘مجھ سے ایک فرد کے طور پر بات کریں، ایک کسان کے طور پر میرے پس منظر کو، جاٹ برادری کے رکن کے طور پر میرے پس منظر کو نشانہ نہ بنائیں۔ … یہ صرف ایک کسان اور ایک کمیونٹی کی توہین نہیں ہے، یہ راجیہ سبھا کے چیئرمین کے دفتر کی توہین ہے، اور وہ بھی ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے جو اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ایک ایم پی، ایک سینئر ممبر، ایک اور ممبر کا ویڈیو بناتاہے… انسٹاگرام پر ،آپ کی پارٹی نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا جسے بعد میں ہٹا دیا گیا۔ یہ میرے لیے شرم کی بات تھی۔ آپ نے میری توہین کرنے، مجھے رسوا کرنے، ایک کسان کے طور پر میرے پس منظر کی توہین کرنے، ایک جاٹ کے طور پر میری حیثیت کی توہین کرنے، ایک صدر کے طور پر میری حیثیت کی توہین کرنےکے لیے، (پارٹی) کے ترجمان کے ٹوئٹر ہینڈل کا استعمال کیا۔’
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ (اس وقت تک ) 143 ارکان پارلیامنٹ کی معطلی کے بعد اپوزیشن کے ارکان کی جانب سے پارلیامنٹ کے باہر احتجاج کیا جا رہا تھا۔ اس کارروائی میں دھن کھڑ کے ذریعے پارلیامنٹ کی سیکورٹی میں ہونے والی کوتاہیوں پر حکومت کے بیان کا مطالبہ کر رہے راجیہ سبھا ممبران پارلیامنٹ کے احتجاج کو دباتےہوئے انہیں معطل کیا گیا تھا۔
جہاں دھن کھڑ نے ایوان کی کارروائی ملتوی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ارکان کو معطل کر دیا، وہیں یہ واضح ہے کہ وہ کسی بھی تنقید کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، وہ بھی اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ وہ ایک آئینی عہدے پر فائز ہیں۔
چوں کہ یہ مسئلہ ایک تنازعہ میں بدل گیا ہے، دھن کھڑ کو بی جے پی لیڈروں، وزیر اعظم نریندر مودی اور یہاں تک کہ صدر دروپدی مرمو کی
حمایت حاصل ہوئی ۔ جہاں بہت سے لوگ یہ دلیل دیں گے کہ ممکری کرنا تنقید کی ایک تسلیم شدہ صورت ہے اوربھلے ہی وہ ایک آئینی عہدے پر ہوں ، وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہیں، وہیں اپنی ذات اور کھیتی کے پس منظر کا حوالہ دے کر دھن کھڑ نے یہ تاثر دیا کہ ان کی تنقید کسان طبقے کی تنقید ہے۔
اور اسی جگہ میں معزز نائب صدر سے اختلاف کرتا ہوں۔
ان کی ہی جاٹ برادری کا ایک فرد ہونے کے ناطے، جس کا خاندان کئی نسلوں سے کھیتی باڑی میں مصروف ہے، مجھے وہ دوہرا رویہ صاف نظر آتا ہے جہاں جاٹ کسانوں کے ایک طبقہ کوجب اینٹی نیشنل کہا جاتا ہے ، تو مکمل خاموشی نظر آتی ہے اور تن آسانی پر اپنی جاٹ پہچان کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
شاید نائب صدر یہ بھول گئے ہیں کہ جب میڈل جیتنے والے پہلوان، جن میں جاٹ کسانوں کی بیٹیاں بھی شامل تھیں، حکمراں بی جے پی کے ایک ایم پی کے خلاف
احتجاج کر رہے تھے ، تو کھلاڑیوں کی امیج کو خراب کرنے کی کئی کوششیں کی گئی تھیں۔
حالانکہ اس وقت ملک بھر کی جاٹ تنظیمیں کھلاڑیوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی تھیں، لیکن جاٹ پہلوانوں کو نشانہ بنائے جانے کے دوران ہم نے دھن کھڑ کی ایسی جذباتی تقریر نہیں سنی۔
درحقیقت، دھن کھڑ راجیہ سبھا میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی کی تنقید کر رہے تھے، وہ بھی ان کا نام لیے بغیر، جنہوں نے ممکری کرتے ہوئے ٹی ایم سی کے رکن پارلیامنٹ کا ویڈیو ریکارڈ کیا تھا – وہی راہل جو احتجاج کرنے والے پہلوانوں کی حمایت میں آواز بلند کر رہے تھے، ٹھیک ویسے ہی جیسے وہ تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج کے دوران کسانوں کی حمایت کر رہے تھے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ آئینی عہدہ پر بیٹھ کر، خود کو جاٹ بتاتے ہوئے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے پارلیامنٹ اور سماج کے دیگر شعبوں میں مختلف برادریوں کی نمائندگی کا مسئلہ صحیح طریقے سے اٹھایا ہے۔
اتفاق سے نائب صدر کا آبائی گاؤں جھنجھنو ضلع میں ہے، جہاں سے ہر سال ہزاروں نوجوان فوج میں شامل ہوتے ہیں، جن میں سے ایک بڑا حصہ جاٹ نوجوانوں کا ہوتا ہے۔
جھنجھنو اور سیکر جیسے اضلاع پر مشتمل شیخاوتی خطہ میں مرکزی حکومت کی طرف سے لائی گئی اگنی ویر اسکیم کے خلاف مسلسل
مظاہرے ہو ئے، تاہم آج تک نائب صدر جمہوریہ نے اس معاملے پر اپنی خاموشی نہیں توڑی ہے جو ان کے ہی علاقہ کے ہزاروں جاٹ نوجوانوں کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔
جاٹ نام کا استعمال کرنا اور برادری کے مسائل کو اٹھانا تب تک ٹھیک ہے جب تک کہ یہ صرف ان مسائل تک محدود نہ ہو جو حکمران پارٹی کو راس آتے ہوں۔
(اکھل چودھری انسانی حقوق کے وکیل ہیں اور راجستھان میں رہتے ہیں۔)
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)