پیگاسس معاملے پر سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ تکنیکی کمیٹی کی جانب سے کوئی حتمی اور فیصلہ کن نتیجہ نہ آنے کے بعد عدالت کے پاس سچ جاننے کے دو آسان طریقے ہیں۔ ایک، مرکزی وزیر داخلہ اور این ایس اے سمیت تمام اہم عہدیداروں سے ذاتی حلف نامہ طلب کرنا اور دوسرا، معروف تنظیموں سے کمیٹی کے نتائج کاتجزیہ کروانا۔
ہندوستان میں پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے قائم کی گئی تکنیکی کمیٹی دو ایسے نتائج پر پہنچی ہے، جن میں تال میل بٹھانا مشکل ہے۔ ایک طرف، پینل نے اپنے ٹیسٹ کیے ہوئے پانچ موبائل ڈیوائس میں میلویئر کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے، جبکہ دوسری طرف، اس کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ میلویئر پیگاسس ہے۔
غور طلب ہے کہ یہ سب کچھ نریندر مودی حکومت کی جانب سے اسرائیل میں تیار کردہ اسپائی ویئر کے استعمال کی تصدیق یا تردید سے مسلسل انکار کے مشتبہ پس منظر میں رونما ہوا ہے۔
چونکہ کمیٹی کی رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر ایساکبھی نہیں ہوسکتا، اس لیے کمیٹی کے پیگاسس کے استعمال کے حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ نہ کرنے کی وجوہات معلوم نہیں ہیں۔خود پیگاسس کے بارے میں ہی معلومات عوامی ڈومین میں نہیں ہے: پیٹنٹ کے دفترمیں بھی کہیں ایسی کوئی فائل نہیں ہے جسے بطور حوالہ استعمال کیا جا سکے۔ اور نہ ہی پیگاسس کو بنانے والی اور فروخت کرنے والی خفیہ اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کسی طرح سے کوئی قابل تصدیق میٹرکس فراہم کرنے کو تیار ہوگی۔
کسی بھی طرح کے سرکاری سرٹیفیکیشن کی غیر موجودگی میں سٹیزن لیب اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکیورٹی لیب جیسے ماہر اداروں نے متاثرہ ڈیوائس میں مختلف فرانزک عناصر کی بنیاد پرپیگاسس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے ساتھ ساتھ این ایس او گروپ سے وابستہ انفیکشن ویکٹر اور سرور کے استعمال طریقے تیار کیے ہیں۔
سابق چیف جسٹس این وی رمنا نے خود ان دونوں کی مہارت کا اعتراف گزشتہ اکتوبر میں کیا تھا، جب انہوں نےاس سلسلے میں تحقیقات کا فیصلہ سناتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ –جن درخواست گزاروں نے پیگاسس کے بارے میں شکایات لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، انہوں نے ‘کچھ ایسے مواد کو ریکارڈ پر رکھا تھا ، جن کو نظر انداز کیاجاسکتا، جیسے کہ سٹیزن لیب جیسی معروف تنظیموں کی رپورٹ اور ماہرین کے حلف نامے۔اس کے برعکس سپریم کورٹ کی کمیٹی کو دیکھیں تو اس کے کسی بھی ماہر کو پیگاسس پر کام کرنے کا کوئی ماقبل تجربہ نہیں تھا۔
جس طرح سٹیزن لیب اور ایمنسٹی کی فرانزک فائنڈنگز پبلک ڈومین میں ہیں، اسی طرح ٹیکنیکل کمیٹی کے فائنڈنگز کو بھی پبلک کیا جانا ضروری ہے۔ ان پانچ افراد، جن کے فون میں میلویئر ہونے کا پتہ چلا، ان کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے رپورٹ میں ترمیم کرنا کافی آسان ہے۔ جیسا کہ یہ ممکن ہے کہ اگر2021 میں دی وائر کے شائع کردہ پیگاسس کے ذریعے نشانہ بنائے گئے لوگوں کی فہرست میں یہ پانچ افراد پہلے سے ہی شامل ہیں تو شاید یہ سب اس رپورٹ کو عام کرنے کے حق میں ہوں گے۔
ایسے میں آزاد ماہرین – جن میں سٹیزن لیب اور ایمنسٹی کی سیکیورٹی لیب شامل ہیں ، کی طرف سے تکنیکی نتائج کے جائزے کو روکنے کی کوئی بھی کوشش یہ شکوک پیدا کرے گی کہ کمیٹی کے اراکین اپنے نتائج کی صداقت کے بارے میں مطمئن نہیں ہیں۔ خاص طور پر تب جب ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ نتیجہ اخذ کر نے کے لیے خاطر خواہ جانکاری نہیں ہے کہ پیگاسس استعمال کیا گیا تھا۔
درحقیقت، تکنیکی کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں حیران کن بات کیا ہے – یا یوں کہیں کہ سی جے آئی نے عدالت میں رپورٹ کا جو جامع خلاصہ پیش کیا ہے – وہ اس نتیجے سےمتعلق عدم صداقت ہے۔ ہمیں یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ فرانس اور بیلجیئم کی انٹلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ یورپی کمیشن اور برطانیہ کی ایک عدالت نے ان تمام فون کی جانچ کی ہے جنہیں سب سے پہلے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورشیم کے ذریعے’اسپائی ویئر سے متاثرہ ‘ بتایا گیا – اور ان سب نے ان نتائج کی تصدیق کی تھی۔ پھر اکیلا ہندوستان کیوں اس سے باہر ہے، یہ واضح نہیں ہے۔
بلاشبہ، گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی سماعت کا سب سے اہم حصہ سی جے آئی رمنا کا یہ تبصرہ تھا کہ حکومت نے کمیٹی کے کام میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے قبل اکتوبر 2021 میں کمیٹی کی تشکیل کرتے ہوئے جسٹس رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی نے کہا تھا کہ حکومت قومی سلامتی کی آڑ میں احتساب سے نہیں بچ سکتی۔ عدالت نے کہا تھا کہ ، حکومت ہند کی طرف سے اس طرح کی کارروائی،بالخصوص ایسے معاملے میں جو ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے، کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔اسٹیٹ کےقومی سلامتی کی بات کرنے محض سے عدالت خاموش تماشائی نہیں بنے گی۔
عدالت کو اب اپنے 2021 کے فیصلے کی منطق پر عمل کرنا چاہیے۔ جب سرکارسے پوچھا گیا تو اس نے اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا اس نے پیگاسس کو خریدا یا استعمال کیا ہے۔ تکنیکی کمیٹی کو پانچ فون میں میلویئرملا، لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ پیگاسس تھا یا نہیں۔ ایسے میں اگر عدالت معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے دو آسان قدم اٹھانے ہوں گے۔
سب سے پہلے،سٹیزن لیب اور ایمنسٹی جیسی معروف تنظیموں کو عدالت کی تکنیکی کمیٹی کی رپورٹ اور ان کے استعمال کردہ طریقہ کار کا جائزہ لینےدیں۔ یہ ممکن ہے کہ آزاد اور عالمی مہارت رکھنے والی تنظیم– بالخصوص جس کا اعتراف خود چیف جسٹس رمنا نے کیاتھا، اس کی اپنی اہمیت ہے، کے ذریعے زیادہ حتمی نتیجہ یا رزلٹ پاناممکن ہو۔
عالمی ماہرین تکنیکی کمیٹی سے دو قدم آگے جا سکتے ہیں اور یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ میلویئر پیگاسس نہیں ہے۔ یا وہ ان آلات کی جانچ یا طریقہ کار کے جائزے کی بنیاد پر جو کچھ پہلے کہہ چکے ہیں اس کا اعادہ کرسکتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تکنیکی کمیٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں اپنے استعمال کردہ طریقوں کی تفصیلی وضاحت پیش کی ہے۔ اگر کمیٹی کو معلوم ہوتا ہے کہ ایمنسٹی کا طریقہ کار مکمل طور پر پیگاسس کا پتہ لگانے کے لیے کافی نہیں ہے، تو یہ ایسا کہنے کے مترادف ہے کہ پیگاسس کہیں اور بھی نہیں ملا ہے- یہ ایک ایسا نتیجہ ہوگا، جو مغربی انٹلی جنس ایجنسیوں کے اخذکردہ نتائج کے سامنے نہیں ٹکے گا۔
دوسرا، عدالت کواس بات پرزور دینا ہوگا کہ حکومت ایک واضح حلف نامہ داخل کرے،اور اس کے ساتھ 10 موجودہ اور سابق عہدیداروں کے ذاتی حلف نامے ہوں، جن وہ حلف کے ساتھ بتائیں کہ وہ ہندوستان میں پیگاسس کی خریداری اور استعمال کے بارے میں جانتے ہیں یا نہیں۔ ی
ہ دس ہیں –مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ ،قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ کے سامنت گوئل اور انیل دھسمانا، انٹلی جنس بیورو کے تپن ڈیکا، اروند کمار اور راجیو جین، سابق ہوم سکریٹری راجیو مہرشی اور اجے کمار بھلا،ساتھ ہی پی کے سنہا اور راجیو گوبا، جو بالترتیب سابق اور موجودہ کابینہ سکریٹری ہیں۔
پیگاسس کو حاصل کرنے اور استعمال میں لانے کے عمل کے تمام یا کچھ حصے انہی لوگوں کے ذریعے پورے ہوئے ہوں گے۔ اگر انہیں پیگاسس پروجیکٹ کے ذریعے نشانہ بنائے جانے والے افراد کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور وہ ان کے خلاف کسی بھی طرح سے اسپائی ویئر کے استعمال میں ملوث نہیں ہیں، تو انہیں قانونی حلف نامے میں یہ بتانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ان آسان اقدامات کی مدد سے سپریم کورٹ سچائی کی سمت میں بہت آگے جا سکتی ہے۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)