رام راجیہ خود بخود نہیں آئے گا، اس کے لیے بڑے پیمانے پر سماجی کوشش اور جد و جہد کرنی ہوگی۔ سب کے لیے انصاف چاہیے ہوگا۔ جنس، ذات پات اور برادریوں کے درمیان برابری لانی ہوگی۔ ہر ایک کے لیے معقول تنخواہ والی ملازمتیں، اچھی تعلیم اور صحت کی خدمات اور ماحول کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ صرف رام کو پکارنے سے نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم نے 22 جنوری 2024 کو کہا تھا کہ ‘صدیوں کے انتظار کے بعد ہمارے رام آ گئے ہیں۔’ کیا وہ کہیں چلے گئے تھے؟ کیا وہ اس لیے واپس آئے ہیں کہ ان کے لیے ایک عظیم الشان مندر بنایا گیا ہے؟ کیا رام اس لیے چلے گئے کہ ان کا مندر مبینہ طور پر بابر نے گرایا تھا؟ کیا رام کو خوش کرنے کے لیے مندر کا عظیم الشان ہونا ضروری ہے یا یہ ہماری انا کی تسکین کے لیے ہے کہ ہم ایک عظیم الشان مندر بنا سکتے ہیں؟ کیا مریادا پرشوتم رام اس طرح کی نمائش کو قبول کریں گے، جب کروڑوں ہندوستانی ایسے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو ‘رام راجیہ’ کے کسی بھی تصور سے کوسوں دور ہیں؟
‘رام راجیہ’ کون نہیں چاہتا؟ یہ ایک قومی ہدف رہا ہے۔ موہن داس کرم چند گاندھی نے اسے حاصل کرنے کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا۔ آج کا حکمراں طبقہ پھر اس مقصد کے حصول کی بات کر رہا ہے۔
اس تاخیر کی وجہ بھگوان شری رام کے وجود کو لے کر دہائیوں سے جاری قانونی جنگ کو قرار دیا گیا ہے۔ دراصل لڑائی مندر کی جگہ کو لے کر تھی، نہ کہ رام میں لوگوں کے عقیدےکو لے کر۔ اگر وہ وشنو کے اوتار ہیں تو کیا وہ ہر ذرے میں اور اس لیے ہر انسان میں نہیں ہیں؟ کیا انسانوں کے ذریعے کسی مندر کی تباہی یا تعمیر ان کے وجود اور رہائش میں کوئی تبدیلی لاتی ہے؟ وزیراعظم نے ‘عدلیہ کے تئیں اظہار تشکر کیا جس نے انصاف کے وقار کو برقرار رکھا۔’ کیا عدلیہ رام کو واپس لے آئی ؟ مزید یہ کہ اگر وہ ہم سب میں ہے اور آفاقی ہیں تو پھر ‘رام راجیہ’ ختم کیوں ہوگیا؟
کیا کسی مندر کا انہدام اور اس کی تعمیر سیاسی مقاصد کے لیے کیا گیا انسانی کام نہیں ہے؟ مذہب کا استعمال کر کے اپنی سیاست کا پروپیگنڈہ کرکے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے؟
رام راجیہ کا تصور
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ رام نے، چاہے اوتار لے کر یا ایک انسان کے طور پر راجا کی حیثیت سے، اپنے دور میں ایک انصاف پسند معاشرہ قائم کیا تھا۔ ‘رام راجیہ’ کا وہ تصور کیا تھا؟ جس ملک میں ان کی پوجا کی جاتی ہے وہاں کا معاشرہ اس تصور سے کیسے گمراہ ہو گیا؟ یہ محض سماجی نقل و حرکت کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اگر رام راجیہ کو پھر سے زندہ کرنا ہے تو سماج میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اگر مندروں کا وجود تبدیلی لا سکتا ہے تو لاتعداد وشنو اور رام مندر بن چکے ہیں جن سے ایسا ہو جانا چاہیے تھا۔
رام کا دور سیدھا سادا تھا – بقا کے لیے صرف چند بنیادی چیزوں کی ضرورت تھی۔ کیا ملک اس کی طرف لوٹ سکتا ہے؟ کیا لوگ جدید معیشت میں استعمال کے لیے دستیاب مصنوعات کی بڑی تعداد کو ترک کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ محنت کی پہلے کی سادہ تقسیم نے تخصص کی ایسی دولت پیدا کی جو ایک چھوٹا ملک بھی پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ مزید یہ کہ رام راجاتھے جبکہ آج پارلیامانی جمہوریت ہے۔
ہندوستانیوں نے اپنی مرضی سے گلوبلائزڈ دنیا میں عالمی اثرات کو اپنایا ہے۔ ہنر مند ہندوستانی اور نوجوان بڑی تعداد میں بیرون ملک ہجرت کر رہے ہیں اور امیر ہندوستانی ایسے ملک میں سرمایہ پیدا کر رہے ہیں جہاں سرمائے کی کمی ہے۔ موجودہ عالمگیریت نے ہندوستانیوں کو صارفیت پسند، خودغرض، بکھرا ہوا، لالچی اور غیر اخلاقی بنا دیا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو کمزوروں کو محکوم بنانے اور حاشیے پرپڑے لوگوں کو اورزیادہ حاشیہ پردھکیلنے میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ یہ سب کچھ کسی انصاف پسند معاشرے یا گاندھی کے ‘رام راجیہ’ کے تصور کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ کیا رام کے تئیں عقیدت، حکمراں اشرافیہ کی بنیادی سوچ کو بدل دے گی؟
کیا صارفیت اور موسمیاتی تبدیلی کے عالمی رجحانات کے باوجود صرف ہندوستان میں رام راجیہ ہو سکتا ہے؟ پہلے یہ بحث ایک ملک میں کمیونزم کے بارے میں ہوا کرتی تھی۔
وزیر اعظم نے یہ کہتے ہوئے کہ ‘رام آگ نہیں ہے، رام توانائی ہے،… شری رام کی شکل میں ہندوستانی ثقافت میں اٹل یقین کی بھی پران —پرتشٹھاہے۔ انسانی اقدار اور اعلیٰ ترین آدرشوں کی بھی پران —پرتشٹھا ہے’ لوگوں سے اپیل کی کہ ’شری رام کا عظیم الشان مندر تو بن گیا… اب آگے کیا؟… ہمیں آج سے اگلے ایک ہزار سال کے ہندوستان کی بنیاد رکھنی ہے… ہمیں اپنے ضمیر کو وسعت دینا ہوگی…. عظیم الشان رام مندر ہندوستان کی ترقی، ہندوستان کے عروج کا گواہ بنے گا، یہ عظیم الشان رام مندر ایک عظیم الشان ہندوستان، ترقی یافتہ ہندوستان کے عروج کا گواہ بنے گا!’
دوسرے لفظوں میں کہیں ، تو رام راجیہ اپنے آپ نہیں آئے گا کیونکہ ‘رام آفاقی ہیں، دنیا ہیں، وہ عالمگیر روح ہیں۔’ اس کے لیے بڑے پیمانے پر سماجی کوششیں کرنا ہوں گی۔
اس کے وسیع ترین تصور میں، مہذب وجود کے لیے سب کے لیےانصاف کا متقاضی ہوگا۔ جنس، ذات اور برادریوں کے درمیان برابری پیدا کرنی ہوگی۔ کم از کم، سب کے لیے معقول تنخواہ والی نوکریاں، سب کے لیے اعلیٰ معیاری تعلیم اور صحت کی خدمات، اور صاف ستھرا ماحول چاہیے ہوگا۔ آج ہندوستان اس آئیڈیل سے بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔
کیا مریادا پرشوتم کبھی ملک کی موجودہ حالت کو قبول کرتے، جس میں حکمراں ملک کے لاتعداد لوگوں کی حالت زار سے لاتعلق ہیں؟ حکمراں اشرافیہ کے زیر کنٹرول حکومت اس کو بدل سکتی ہے۔ اگر کسی عظیم الشان تقریب کا کوئی اثر ہوتا ہے تو اس کا اثر وہاں موجود مخصوص لوگوں پر ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنے رویے اور اعمال کو بدل کر سماجی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ضروری تبدیلیاں
کیا تقریب میں موجود بڑے کاروباری اور ان کے متعدد نمائندے اپنی استحصالی فطرت کو تبدیل کر سکتے ہیں اور اپنے کاروبار کو مزید اخلاقی بنانے کے لیے اپنے لالچ کو کم کر سکتے ہیں؟ ان کا سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں پر کافی کنٹرول ہے۔ اس لیے وہ اپنی کالی کمائی کو روکنے کے ساتھ ساتھ وہ اسے بڑھنے سے روکنے کے لیے قیادت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ پالیسی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے، کیونکہ محض پیسہ خرچ کرنے سے نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اس سے ٹیکس کی وصولی کم ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ضروری خدمات (جیسے تعلیم اور صحت) کے لیے فنڈز کی کمی ہوتی ہے جو زیادہ مہذب اور پرامن معاشرے کی طرف لے جا سکتی ہے۔ وہ اپنے کارکنوں کو اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے معقول اجرت دے سکتے ہیں۔ وہ بچوں کو نشانہ بنانے والے اشتہارات کو روک سکتے ہیں جو انہیں صارف بناتے ہیں اور کولڈ ڈرنکس اور جنک فوڈ جیسی مصنوعات کی فروخت روک سکتے ہیں جو بچوں کے لیے نقصاندہ ہیں۔ وہ مفت تعلیم کے لیے سینکڑوں اسکول اور کالج کھول سکتے ہیں۔
مندر کی تقریب میں فلم سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ اشتہارات کے ذریعے وہ زیورات، کولڈ ڈرنکس، جنک فوڈ، مشکوک مالیاتی مصنوعات وغیرہ کی فروخت کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کو فروغ دینے سے انکار کرنے سے وہ صارفیت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جو سماجی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی مددگار ثابت ہوگا۔ وہ ایسی فلموں میں کام کرنے سے بھی انکار کر سکتے ہیں جن سے سماجی ہم آہنگی کو خطرہ ہو یا تشدد کو فروغ دیا جائے اور وہ صرف سماجی طور پر حساس فلموں میں کام کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی عوامی تصویر کا استعمال لوگوں کو سنگین سماجی مسائل اور ناانصافی پر موقف اختیار کرنے کی ترغیب دینے کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے دبئی، لندن، نیویارک وغیرہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی ہیں، جو قومی وسائل کو ختم کرتی ہیں۔ کیا وہ اپنا پیسہ واپس لا سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ، وہ اپنی فلموں اور اشتہارات کے لیے کالا دھن قبول کرنے سے بھی انکار کر سکتے ہیں، چاہے وہ ہندوستان میں ہوں یا بیرون ملک۔
اس تقریب میں موجود عدلیہ اور بیوروکریسی کے ارکان مریادا پرشوتم کی پیروی کر سکتے ہیں اور اوپر سے آنے والے احکامات کے آگے جھکنے کے بجائے قوانین کو نافذ کرنے میں اپنی آزادی برقرار رکھ سکتے ہیں۔
تقریب میں موجود لیڈران ایمانداری سے الیکشن لڑنے کا انتخاب کر سکتے ہیں، کالا دھن نہ لینے اور ذات پات اور برادری کے ووٹ بینک کی سیاست نہ کرنے کی راہ اختیار کرسکتے ہیں۔ وہ جھوٹے وعدے کرنا بند کر سکتے ہیں، اپنی ٹرول فوجوں کو ختم کر سکتے ہیں اور اپنے مخالفین کے بارے میں جھوٹ پھیلانا بند کر سکتے ہیں۔ وہ بیوروکریسی پر قوانین کو موڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا بند کر سکتے تھے۔ کیا حکمراں رام کی اس بات کی پیروی کر سکتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے تنقید کا احترام کیا، اورجیسا کہ رام چرت مانس میں مذکور دھوبی کےواقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے (ایک بڑی شخصی قیمت پر بھی) اقلیتوں کی رائے کی پرواہ کی ۔
خلاصہ
رام راجیہ کا قیام ہندوستانی حکمراں طبقے کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ صرف رام کو پکارنے سے نہیں ہوگا۔ انہیں خود سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ تب ہی ‘اگلے ایک ہزار سال کے ہندوستان کی بنیاد’ رکھی جا سکتی ہے۔ تب ہی ‘ایک عظیم الشان رام مندر، ایک عظیم الشان ہندوستان، ترقی یافتہ ہندوستان کے عروج کا گواہ ہوگا۔’ پچھلے 75 سالوں میں بہت سی غلط شروعاتیں ہوئی ہیں۔ اس موقع کو اس میں تبدیل نہ ہونے دیں۔
(ارون کما جے این یو میں معاشیات کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔)
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)