جموں وکشمیر میں گزشتہ چھ دنوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں سات شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے چھ سرینگر میں ہلاک ہوئے۔مہلوکین میں سے چار اقلیتی کمیونٹی سے ہیں۔سات اکتوبر کو سرینگر میں پرنسپل سپندر کور اور ٹیچر دیپک چند کوہلاک کر دیا گیا۔ پانچ اکتوبر کو کشمیری پنڈت کمیونٹی کے معروف کیمسٹ ماکھن لال بندرو سمیت تین لوگوں اور دو اکتوبر کو دو شہریوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی اسکول کی پرنسپل سپندر کور کی آخری رسومات کے دوران سوگوار رشتہ دار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: جموں وکشمیر کی راجدھانی سرینگر کے عیدگاہ علاقے میں ایک سرکاری اسکول میں جمعرات(سات اکتوبر)کو دہشت گردوں کے ہاتھوں ماری گئیں اسکول پرنسپل سپندر کور اورٹیچر دیپک چند کی آخری رسومات جمعہ کو ادا کی گئیں۔
اس دوران لوگوں نے نم آنکھوں سے ان کو الوداع کہا۔ حال کے دنوں میں دہشت گردوں کے ذریعےعام شہریوں کی بڑھتی ہلاکتوں سےناراض مظاہرین نے جموں وکشمیر کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرہ کیا، جبکہ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ یونین ٹریٹری میں بگڑتے حالات کے لیےمرکز کی غلط پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔
سرینگر کے کرن نگر علاقے میں ایک شمشان گھاٹ پر اہل خانہ اور رشتہ داروں کی موجودگی میں آخری رسومات ادا کی گئیں۔
الوچی باغ کے علاقے میں کور کی رہائش گاہ پر کمیونٹی کے سینکڑوں افراد جمع ہوئے اور انہوں نے ایک اسٹریچر پر ان کےجسدخاکی کو رکھ کر وہاں سے ایک مارچ نکالا۔
انہوں نے الوچی باغ سے جہانگیر چوک تک پیدل مارچ کیا اور پرنسپل سپندر کور اور ان کے اسسٹنٹ ٹیچر دیپک چند کے لیےانصاف کی مانگ کرتے ہوئے نعرے لگائے۔
دیپک چند کے آخری رسومات کی ادائیگی جمعہ کو جموں کے ایک شمشان گھاٹ میں کی گئی۔ اس دوران مختلف سیاسی پارٹیوں کے سینئر رہنماؤں سمیت ہزاروں لوگ موجود تھے۔
شکتی نگر شمشان گھاٹ میں دیپک چند کےآخری رسومات کے دوران کافی سوگوار ماحول تھا۔ ان کا جسد خاکی دیر رات سرینگر سے جموں کے پٹولی واقع ان کے گھر لایا گیا۔
اس دوران چند کی ماں کانتا دیوی اور ان کی بیوی انورادھا بے ہوش تھیں۔ بیٹے کے غم میں ڈوبی کانتا دیوی نے کہا، ‘میں کچھ نہیں چاہتی، مجھے کوئی نوکری نہیں چاہیے، بس میرے دیپک کو واپس لوٹا دو۔’
جموں وکشمیر میں گزشتہ چھ دنوں میں سات شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جن میں سے چھ سرینگر میں ہوئیں۔مہلوکین میں سے چار اقلیتی کمیونٹی سے ہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، دہشت گردوں نے 2021 میں اب تک 28شہریوں کوہلاک کیا ہے۔ ابھی تک 97دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں، جن میں71فورسز پر اور 26 شہریوں پر ہوئے ہیں۔
گزشتہ سات اکتوبر کو سرینگر میں پرنسپل سپندر کور اورٹیچر دیپک چند کو ہلاک کر دیا گیا۔
اس سے پہلےگزشتہ پانچ اکتوبر کو دہشت گردوں نے کشمیری پنڈت کمیونٹی کے معروف کیمسٹ ماکھن لال بندرو، بہار کےباشندہ سیلس مین ویریندر پاسوان اور باندی پورہ میں ایک ٹیکسی اسٹینڈ ایسوسی ایشن کے صدر محمد شفیع لون کوقتل کر دیا تھا۔
سرینگر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئےٹیچر دیپک چند کی بیوی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
ان کے علاوہ گزشتہ دو اکتوبر کو سرینگر میں ماجد احمد گوجری اور بٹ مالو میں محمد شفیع ڈار کو بھی دہشت گردوں نے قتل کردیا تھا۔
کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم نے کہا کہ 2010-11 میں بازآبادی کے دوران سرکاری نوکری حاصل کرنے والےکمیونٹی کےلوگ اپنی حفاظت کو لےکر ڈرے ہوئے ہیں۔ الزام لگایا گیا کہ انتظامیہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔
وہیں سرکاری ذرائع نے بتایا کہ انتظامیہ نے اقلیتی کمیونٹی کے ملازمین کو 10 دن کی چھٹی فراہم کی ہے۔
کشمیری پنڈت سنگھرش کمیٹی کے صدرسنجے ٹکو نے کہا، ‘500 سے زیادہ لوگوں نے بڈگام، اننت ناگ اور پلوامہ جیسی جگہوں کو چھوڑکر جانا شروع کر دیا ہے۔ کئی ایسے غیر کشمیری پنڈت پریوار بھی ہیں جو چلے گئے ہیں۔ یہ ایک بار پھر1990کے دور کی واپسی جیسا ہے۔ ہم نے جون میں لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر سے وقت مانگا تھا، اب تک وقت نہیں دیا گیا ہے۔’
رہنماؤں نےواقعہ کی مذمت کی
اس بیچ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ہلاکتوں کو لےکر سرکار کو نشانہ بنایا ہے۔ پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کی صدرمحبوبہ مفتی نے دہشت گردوں کی گولیوں کی شکار اسکول پرنسپل سپندر کور کے پریوار سے ملنے کے بعدجمعہ کو کہا کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے ذریعےاٹھائے گئے غلط قدم جموں کشمیر میں‘بگڑتی’ صورتحال کے لیے ذمہ دار ہیں۔
محبوبہ نے کور کے الوچ باغ واقع گھر کے باہر صحافیوں سے کہا، ‘حالات دن بہ دن بگڑتے جا رہے ہیں اور اس کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی )کی قیادت والی سرکار ذمہ دار ہے۔سرکار کے ذریعے پانچ اگست 2019(آرٹیکل 370 کورد کرنے)کے بعد سے اور اس سے پہلے اٹھائے گئے غلط قدم کشمیر میں تیزی سے بگڑتے حالات کے لیے سیدھے طور پر ذمہ دار ہیں۔’
جمعہ کو انہوں نے الزام لگایا کہ حال ہی میں ٹارگیٹ کلنگ کے مد نظر پی ڈی پی نے ایکتا مارچ نکالنے کی کوشش کوپولیس نےروک دیا۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت ہندیہ افواہ پھیلاتی ہے کہ کشمیری مسلمان یہاں اقلیتوں کے لیے کھڑے نہیں ہوتے ہیں۔سچائی یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہ بی جے پی کے انتخابی بیانیے اورامکانات کے مطابق ہے۔
محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘گزشتہ کچھ دنوں تک سیکیورٹی میں لگے لوگ پوری طرح سے عام پکنک ٹور اور دورے پر آئے وزیروں کے لیے گھڑ سواری کے اہتمام میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شاید ان حملوں کو ٹالا جا سکتا تھا اگر ان کی واحد توجہ ان وزارتی دوروں اورحالات کونارمل دکھانے کی قلابازی پر نہیں ہوتی۔’
کشمیر گھاٹی میں پانچ دنوں میں دہشت گردو ں کے ہاتھوں سات شہریوں کی ہلاکتوں کے بیچ محبوبہ نے مانگ کی کہ ہے باربار ہو رہی سیکیورٹی چوک کے لیے جوابدہی طے کی جائے۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا،‘یہاں ہر کوئی جبراور خوف کے ماحول میں جی رہا ہے۔اقتدار میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ذمہ دار لوگوں کو باربار ہو رہی ان سیکیورٹی چوک کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔’
پی ڈی پی چیف نے دعویٰ کیا کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ سلامتی ایجنسیوں کو اس طرح کے حملوں کے بارے میں پہلے سے اطلاع تھی۔
محبوبہ نے سوال کیا،‘پھر بھی وہ ان بےقصور لوگوں کی جان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے۔کیا ایسا اس لیے ہے، کیونکہ وہ اپنی ساری توانائی سرکاری ملازمین کو برخاست کرنے اور عام کشمیریوں کے پاسپورٹ ضبط کرنے میں لگا رہے ہیں؟’
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے جمعہ کو کہا کہ جموں وکشمیر میں شہریوں پر حال میں ہوئے حملوں کا مقصد کمیونٹی کے بیچ کشیدگی پیدا کرنا ہے اور یہ اکثریت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے بھائیوں کو تحفظ کااحساس دلائیں۔
انہوں نے کشمیر میں اقلیتی کمیونٹی کے ممبروں سے اپنے گھروں کو چھوڑکر 1990کی دہائی میں جو ہوا، اسے نہیں دہرانے کی اپیل کی۔
عبداللہ نے یہاں الوچی باغ میں پرنسپل سپندر کور کےگھر پر جانے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے حملہ آوروں کو پکڑنے میں ناکام رہنے کے لیے انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس وقت کےجموں وکشمیر ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بھلے ہی وہ سرکار کا حصہ نہیں ہیں، لیکن وہ ‘پچھلے مہینے سے سن رہے تھے کہ یہاں اقلیت کو نشانہ بنایا جائےگا۔’
انہوں نے کہا،‘میں نے یہ بات بہت ذمہ دار لوگوں سے سنی۔ جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی تو کیایہ انتظامیہ کے ذمہ دارلوگوں تک نہیں پہنچی؟ انہوں نے اس کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کیا؟’
کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی وادرا نے جموں وکشمیر میں پچھلے کچھ دنوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہریوں کوہلاک کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے جمعہ کو کہا کہ مرکزی حکومت کو اس یونین ٹریٹری کے باشندوں کی حفاظت کے لیے فوراً قدم اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا،‘ہمارے کشمیری بہنوں بھائیوں پر دہشت گردوں کےبڑھتے حملے دردناک اور قابل مذمت ہیں۔ اس مشکل گھڑی میں ہم سب اپنی کشمیری بہنوں بھائیوں کے ساتھ ہیں۔’
احتجاجی مظاہرہ
دریں اثنا کئی تنظیموں نے جمعہ کو یہاں احتجاجی مظاہرہ کیا اور کہا کہ اس طرح کاتشدد علیحدگی پسندوں کے بیچ مایوسی کا نتیجہ ہے، کیونکہ اس علاقے میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔
ان ہلاکتوں کے خلاف جموں وکشمیر پیپلس فورم (جےکےپی ایف)کے زیر اہتمام ایک ریلی میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی مانگ کی۔
پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہوئے مظاہرہ نے جموں کے توی پل پرٹریف جام کر دیا اور کشمیر کے آخری راجہ مہاراجہ ہری سنگھ کےمجسمہ کے نیچےجمع ہوئے۔
جے کے پی ایف کے علاوہ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا اور جاگرن منچ نے بھی واقعات کے خلاف مظاہرہ کیا، جبکہ کشمیری پنڈت کمیونٹی کے ممبروں نے پرکھو، بوٹانگر اور مٹھی میں مظاہرہ کیا۔
جے کے پی ایف ممبر راجیو پنڈت نےصحافیوں سے کہا، ‘ہم پچھلے کچھ دنوں کے دوران کشمیر میں اقلیتوں(سکھوں اور ہندؤں)کی چنندہ اور منصوبہ بند طریقے سے کیے گئےقتل پر اپنا غصہ ظاہر کرنے کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ٹی آرایف(مزاحمتی محاذ)کے دہشت گردوں نے چنندہ طریقے سے اقلیتوں کے دو اساتذہ کو نشانہ بنایا اور انہیں گولی مار دی۔’
پنڈت نے کہا کہ ہلاکتیں کشمیر گھاٹی میں تیزی سے ہو رہی ترقی کی وجہ سے علیحدگی پسندوں اوردہشت گردوں کے بیچ مایوسی کا نتیجہ ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کی جموں کشمیر اکائی کے نائب صدریدھ ویر سیٹھی نے کہا کہ ان ہلاکتوں کے لیے ذمہ دار لوگوں کو سزا دی جائےگی اور انہیں چھوڑا نہیں جائےگا۔
سیٹھی نے کہا،‘دہشت گرد کشمیر میں خوف اور ڈر پیدا کرنے کے لیے‘سافٹ ٹارگیٹ’ اور نہتے اقلیتوں پر حملہ کر رہے ہیں۔دباؤ کی وجہ سے وہ (دہشت گرد)تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔’
وی ایچ پی کے مرکزی جنرل سکریٹری ملند پرانڈےنے ایک بیان میں کہا، مرکزی حکومت جہادی دہشت گردوں پر نکیل کسنے کے لیے پاکستان کو سبق سکھائے اور ہندوؤں کی بازآبادی اور گھاٹی میں ان کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے مناسب انتظامات کو یقینی بنائے۔’
کشمیر کے متاثرہ خاندانوں کے لیےتعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وی ایچ پی کا ہر کارکن و ہندو سماج کے متاثرین کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کی قربانی ضائع نہیں جائےگی۔
انہوں نے کہا، ‘ہندوستان زہریلے سانپوں کا سر کچلنا اچھی طرح جانتا ہے۔ اب ہندوستان کے ہاتھوں سے ہی کھدےگی اسلامی جہادی دہشت گردوں کی قبر۔’
جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے بھی مارچ نکالا اوران واقعات کی مذمت کی۔اس کے صدر ارون گپتا کی قیادت میں سینکڑوں تاجروں ، اور کاروباریوں نے پاکستان مخالف نعرے لگائے اور گھاٹی میں اقلیت کوفوراً سیکیورٹی دیے جانے کی مانگ کی۔
جموں کشمیر نیشنل پینتھر پارٹی(جے کے این پی پی)کے صدر ہرش دیو سنگھ کی قیادت میں کارکنوں نے جموں میں مظاہرہ کیا اور تشدد کو روکنے میں ناکامی کے لیے سرکار کی مذمت کی۔
مظاہرین نےبی جے پی مخالف نعرے لگائے اور وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے استعفیٰ کی مانگ کی۔
جے کے این پی پی کے رہنماؤں کی پولیس اہلکاروں سے جھڑپ بھی ہو گئی، جنہوں نے راج بھون کی جانب مارچ کرنے سے روکنے کے لیے بڑے بڑے بیریکیڈ لگا رکھے تھے۔
کشمیر میں خوف کا ایسا ماحول 1990 کے بعد سے کبھی نہیں دیکھا: پی اے جی ڈی
پیپلز الائنس فار گپکر ڈیکلریشن(پی اے جی ڈی)نے جمعہ کو کہا کہ کشمیر میں عام لوگوں کی ہلاکت کےحالیہ واقعات نے ڈر کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے، جو 1990کی دہائی کی شروعات کے بعد سے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔پی اے جی ڈی نے موجودہ حالات کے لئے سرکاری پالیسیوں کی ناکامی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
پی اے جی ڈی کےترجمان ایم وائی تاریگامی نے کہا کہ جموں وکشمیر میں موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جمعہ کو پی اے جی ڈی کے صدر فاروق عبداللہ کی رہائش پر ایک بیٹھک بلائی گئی۔
بیٹھک میں پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی، سی پی آئی (ایم) رہنما محمد یوسف تاریگامی اور نیشنل کانفرنس کے رہنما جسٹس (سبکدوش) حسنین مسعودی نے شرکت کی۔
ترجمان نے کہا کہ پی اے جی ڈی نے گھاٹی میں حال میں ہوئے بے قصور لوگوں کی ہلاکت کی مذمت کی۔
انہوں نے کہا، ‘ان ہلاکتوں نے کشمیر میں ڈر کا ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے، جو 90 کی دہائی کی شروعات کے بعد سے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ جموں وکشمیر میں موجودہ صورتحال سرکار کی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے، جنہوں نے جموں وکشمیر کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔’
تاریگامی نے کہا کہ چاہے نوٹ بندی ہو یا آرٹیکل370 کو ہٹانا، ان فیصلوں کو کشمیر میں دہشت گردی اور علیحدگی کی پریشانیوں کےحل کے روپ میں ملک کے سامنے پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا، ‘آج یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ نہ تو نوٹ بندی اور نہ ہی آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے جموں کشمیر میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری ہوئی۔حقیقت میں، جموں وکشمیر انتظامیہ کے کچھ حالیہ فیصلوں نے صرف ان کمیونٹی کے بیچ اختلافات کو بڑھانے کا کام کیا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ امن وامان سے رہ رہے تھے۔’
پی اے جی ڈی کے ترجمان نے کہا کہ ایک سازگار سیکیورٹی ماحول بنانا بناناحکومت کی ذمہ داری ہے تو وہیں جموں وکشمیر کے ذمہ دار سیاسی پارٹیوں کے روپ میں ہم شک اورخوف کو کم کرنے میں اپنا رول نبھائیں گے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ سچ ہے کہ کشمیر میں مرنے والے اکثر لوگ مسلمان تھے، لیکن ایسا کہہ کر ہم اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں کومحفوظ محسوس کرانے کی اپنی ذمہ داری سے نہیں بھاگ سکتے۔ ہم گھاٹی چھوڑنے کی سوچ رہے لوگوں سے ان کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)