بی جے پی نے اسکولوں میں ذات سے متعلق رسٹ بینڈ پر پابندی لگانے والے سرکلر کو ہندو مخالف کارروائی قرار دیا ہے۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے سرکلر واپس لینے کی مانگ کی ہےاور اسکول آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر سے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا انہوں نے دوسرے مذاہب کی علامتوں پر بھی پابندی عائد کرنے کی جرأت کی ہے۔
نئی دہلی: تمل ناڈو میں ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے افسروں سے کہا تھا کہ اسکول میں بچوں کی کلائی پران کی ذات کے لحاظ سے بینڈ پہنانے پر روک لگائیں ۔ حالاں کہ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ریاست کے ایجوکیشن منسٹر نے یہ کہتے ہوئے اس سرکلر کو رد کردیا کہ یہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے ۔ جمعہ کو انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا اسکولوں میں موجودہ ضابطے جاری رہیں گے ۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ، اپنی ذات کی پہچان کے لیے اسکولوں میں کلائی بینڈ پہننے کا کوئی چلن نہیں ہے ۔ موجودہ وقت میں اسکولوں میں جو بھی ضابطے ہیں وہ جاری رہیں گے ، کوئی نیا ضابطہ نہیں ہے۔
غور طلب ہے کہ تمل ناڈو کے کئی اسکولوں میں ذات کی بنیاد پر بچوں کو رسٹ بینڈ (ہاتھ میں پہننے والا بینڈ)پہنانے کے معاملے میں ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے
سینئر افسروں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس طرح کے اسکولوں کی پہچان کر کے ان کے خلاف کارروائی کریں۔رپورٹ کے مطابق،2018 بیچ کے کچھ زیرتربیت آئی اے ایس افسروں کی شکایت پر جاری سرکلر میں ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے کہا تھا کہ ،’تمام اہم تعلیمی افسروں سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ضلع میں اس طرح کے اسکولوں کی پہچان کر کے مناسب قدم اٹھائیں، جہاں بچوں کی ذات کو لےکر اس طرح کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو مناسب ہدایت دی جائیں اور فوراً اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے قدم اٹھائے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی اس سلوک کے لئے ذمہ دار لوگوں کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے۔ ‘
وزیر نے کہا کہ ، سرکلر ایک خاص گروپ (2018 بیچ کے آئی اے ایس افسر)کی نمائندگی کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا ، یہ سرکلر متعلقہ افسروں نے مجھ سے مشورہ کیے بنا جاری کیا تھا ۔ اگر کسی اسکول میں بچوں کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے تو ہم یقینی طور پر اس کے خلاف کارروائی کریں گے ۔مجھے اب تک تمل ناڈو کے اسکولوں میں ایسے کسی بھی چلن کی جانکاری نہیں ملی ہے۔
ریاستی وزیر کا بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب دو دن پہلے بی جے پی کے ریاستی جنرل سکریٹری ایچ راجہ نے اس سرکلر کو ہندو مخالف کارروائی قرار دیا تھا۔ انہوں نے اے آئی ڈی ایم کے کی قیادت والی ریاستی حکومت سے سرکلر واپس لینے کی مانگ کی ہے۔ ایچ راجہ نے اسکول آف ایجوکیشن کے ڈائریکٹر سے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا انہوں نے دوسرے مذاہب کی علامتوں پر بھی پابندی عائد کرنے کی جرأت کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں یہ سرکلر جاری ہوا تھا جس میں تمام اضلاع کے افسران سے ان کے ضلع میں ایسے اسکولوں کی پہچان کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے کہا گیا تھا جس میں اس طرح کا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔دریں اثنا
انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2015 میں اخبار نے کچھ اسکولوں کا جائزہ لیا تھا۔اس جائزے میں انہوں نے پایا تھا کہ ایک اسکول میں دلتوں بچوں نے ہرے اور لال رنگ کا رسٹ بینڈ پہنا ہوا تھا جبکہ اشرافیہ کے بچوں نے پیلے اور لال رنگ کا بینڈ پہنا ہوا تھا ۔اسی طرح نادر ،جنوبی تمل ناڈو میں اوبی سی کمیونٹی نے نیلے اور پیلے رنگ کے بینڈ پہنے ہوئے تھے جبکہ یادو کمیونٹی کے بچوں نے بھگوا بینڈ پہنا تھا۔ اسی طرح ایک علاقے میں دلتوں نے ہرے ، کالے اور سفید بینڈ پہن رکھے تھے ۔
اس وقت یہ مانتے ہوئے کہ ریاست میں اس طرح کا چلن ہے ضلع انتظامیہ نے اس کو ختم کرنے کے لیے اسکولوں ، گارجین اور ٹیچرس ایسوسی ایشن کی میٹنگ بلائی تھی ۔حالاں کہ جمعہ کو ایک سینئر افسر نے کہا کہ اس معاملے میں اس طرح کا سرکلر جاری کرنا مناسب نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ، اس سے متعلق کچھ معاملوں کا حوالہ دیا جانا چاہیے اور واضح کرنا چاہیے کہ اس طرح کا چلن موجود ہے۔ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی شکایت نہیں پہنچی ہے۔ سرکلر میں بتایا گیا ہے کہ بچے اپنی ذات اور کمیونٹی کی شناخت کے لیے پیشانی پر تلک لگاتے ہیں اور انگوٹھی پہنتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم اس پر پابندی عائد کرتے ہیں تو یہ کہیں نہ کہیں ان کے عقائد میں دخل دینے کے برابر ہوگا۔ مبینہ طور پر کمیونٹی کی شناخت کے لیے پہنے جانے والے یہ بینڈ عام طور پر مذہب کی وجہ سے استعمال کیے جاتے ہیں ۔