قرون وسطی کے یورپ میں خواتین کو جادوگرنی بتاکر‘وچ ٹرائل’ہوا کرتے تھے، جن کے بعد پچاسوں ہزارخواتین کو ستونوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔اس وقت اذیت دےکر (ٹارچر)خواتین سے جرم قبول کروا لیا جاتا تھا۔ ریا کا بھی‘میڈیا ٹرائل’نہیں ہوا ہے، ‘وچ ٹرائل’ ہوا ہے۔
گزشتہ6 ستمبر کو این سی بی کی پوچھ تاچھ کے لیے جاتی ہوئی ریا چکرورتی کے ساتھ میڈیااہلکاروں کے ذریعے دھکامکی کی گئی تھی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
ریا چکرورتی
گرفتار ہو گئیں۔پچھلے 85 دنوں سے متعدد ٹی وی چینل جس طرح سے ایک لڑکی پر ٹوٹے پڑے تھے، اس سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ریا کے اوپر الزام لگایا جانا اور آخرمیں ان کا گرفتار ہوناسال 2020 کا سب سے اہم واقعہ تھا۔کیاکووڈ19،کیا لاک ڈاؤن،کیامہاجرمزدوروں کی بھوک مری کا سنگین مسئلہ، کیا ملک کی معیشت کا غیرمعمولی طورپر لڑکھڑا جانا، کیا چین کا لداخ میں تجاوزات، ایک اکیلی ریا سب پر بھاری تھیں۔
کیا خاص بات تھی اس گرفتاری میں؟ کیا یہ ملک کی پہلی گرفتاری تھی؟ کیا یہ ملک کا پہلا ڈرگس کا کیس تھا؟ نہیں!
تازہ ترین سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2018 میں
این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت 49450 کیس درج ہوئے تھے، جن میں کل 60156 گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ پھراس ایک گرفتاری کو لےکر اتنا ہنگامہ کیوں؟
لیکن کچھ چینلوں کی رائے سے ملک میں‘بہار کے بیٹے’ کو انصاف دلانے سے زیادہ کچھ بھی ضروری نہیں تھا اور اس کے لیے ریا کا گرفتار ہونا ضروری تھا۔لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ سرکار کے‘کورونا واریرس’ کی طرح جب ان ‘ریا واریرس’ نے بھی اسے گرفتار کرانے کے لیے اتنی سخت محنت کی ہے تو پورا ملک ایک شام اپنی بالکنی میں کھڑے ہوکر تھالیاں بجاکر اور بے موسم دیے جلاکر ان کے لیے اپنے دلی شکریہ کا اظہار کریں۔
چینلوں کے اینکر ایساسلوک کر رہے تھے کہ لگتا تھا کہ انہیں اسٹوڈیو میں ہی ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا ہے ایک اینکرتو ‘مجھے ڈرگس دو، مجھے ڈرگس دو’ کا نعرہ لگانے لگ گیا۔چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس دھماکے سے پیش کی جا رہی تھی گویا پورا ملک ریلوے اسٹیشنوں کے بک اسٹالوں پر بکنے والے سستے جاسوسی ناول پڑھ رہا ہو اور اب اینکرروپی جاسوس محترم کیس کاانکشاف کرنے ہی والے ہوں۔
سچ یہ ہے کہ ایک ایکٹر کی غیرفطری موت یا اس کی سابق گرل فرینڈ کا اس میں مبینہ رول اہم مدعے نہیں تھے۔اصل میں عوام کا اس معاملےمیں اتنی نفرت کے ساتھ دلچسپی لیناان کے اجتماعی لاشعور میں چھپی بیہودگی(Perversions)اور عورت مخالف رویےکا ثبوت اورنتیجہ دونوں تھا۔
کروڑوں ناظرین اس طرح ریا کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے جیسے‘موت کا رقص’ چل رہا ہو۔یہ ملک سماجی ترقی کے جتنے بھی جھوٹے دعوے کرے، جب عورت کی بات آتی ہے تو اکثر لوگوں کو ساس بہو ٹائپ کے ٹی وی سیریلوں میں دکھائی جانے والی ڈیڑھ کیلو زیور سے لدی، مانگ میں ڈیڑھ سو گرام سیندور لگائے، پورا دن کوئی کام کرنے کے بجائے خود سازش کرنے یا ساس کی سازشوں سےجدوجہد کرنے میں وقت بتانے والی اور رات کو بستر پر بھی کانجی ورم ساڑی پہن کر سونے والی‘آئیڈیل’خواتین ہی پسند آتی ہیں۔
ایک ایسی لڑکی، جو زندگی اپنے طریقے سے جینا چاہتی تھی، جو بنا شادی کیے کسی لڑکے کے ساتھ رہنے میں راحت محسوس کرتی تھی اور جس نے اپنی مرضی سے اس سے رشتہ توڑ بھی لیا، لوگوں کو بےحد ناگوار گزری۔اسے‘سیکس کا چارہ’، وش کنیا، ڈائن وغیرہ کیا کیا نہیں کہا گیا۔ جو لوگ گھر کی چہار دیواری میں قید عورت کو ہی مثالی خاتون مانتے ہیں، ان کے لیے ریا کی لائف اسٹائل ہی اس کے مجرم ہونے کا ثبوت تھی۔
سشانت معاملے کو لےکر مختلف ٹی وی چینلوں کی کوریج (بہ شکریہ: متعلقہ چینل/ویڈیوگریب)
چینلوں نے عوام کو سیدھی کہانی پلائی۔ ایک چالو لڑکی نے ایک بھولے بھالے ‘راجہ بیٹا’ ٹائپ کے لڑکے کو گولیاں کھلاکر یا بنگال کے کالے جادو سے اپنے قابو میں کرکے اس کا سارا پیسہ ہڑپ لیا اور پھر اسے ٹھکانے لگا دیا۔لوگوں نے کہانی کو مقدس وید کا جملہ مان کر اچھی طرح سمجھ میں بٹھا بھی لیا۔ اب عوام کو یہ تو پوچھنا نہیں کہ ایسی کون سی خفیہ دوا ہے جو ایک34 سال کے ہٹے کٹے انجینئر کو مہینوں تک یوں دی جا سکتی ہے کہ اسے پتہ بھی نہ چلے اور وہ کسی کےقابو میں آ جائے۔
عورتوں کوکمتر ماننا ہمارے ملک کی بےحد قدیم سماجی ثقافت اورروایت رہی ہے۔شنکرآچاریہ نے اپنی‘
پرشنوتری منی رتنمالا’میں عورت کوجہنم کا مین گیٹ کہا ہے۔ ‘
بھج گووندم’ میں انہوں نے مردوں کوعورت کی چھاتیوں اور ناف میں محو یاغرق ہو جانے سے ہوشیار کیا ہے۔
ہماراپوراقدیم ادب اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ عورت مردکو زوال کی راہ پر لے جائےگی اور اسے اس روحانیت کوحاصل نہیں کرنے دےگی، جو وہ عورت کو مکمل طو رپرترک کرکے حاصل کر سکتا تھا۔ہم سبھی اپسراؤں کی ان کتھاؤں سے واقف ہیں، جو رشی منیوں کو لبھاکر ان کی تپسیا بھنگ کر دیتی تھیں۔ ان تمام عقائد کانتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کے لاشعور میں عورت کے لیے عزت ختم ہو گئی اور ان کے دل میں گانٹھ پیدا ہو گئے۔
اگر تمام خواتین‘موہنی’ ہیں، جن کی زندگی کا اہم مقصد مردکو لبھانا ہے، تواس منطق کےمطابق وہ یہ ماننے کو مجبور تھے کہ ان کی مائیں بھی وہی رہی ہوں گی جنہوں نے ان کے باپوں کامذہب خراب کر دیا۔جو لوگ اپنی ماؤں کے بارے میں ایسا سوچ سکتے تھے، وہ دوسری عورتوں کی کیا عزت کرتے؟
اس پورے ایپی سوڈ میں لوگ ایک معمولی قانونی بات نہیں سمجھ رہے۔ مان لیجیے ریا پر سشانت کے لیے ڈرگس لانے کے الزام ثابت ہو جاتے ہیں اور سزا ہو جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سشانت بھی تو جرم میں برابر کےشریک تھے۔ہمارے سماج کی بیہودگی کو آپ دوسری طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مان لیجیے ایسا ہی کوئی لو ان ریلیشن شپ کا جوڑا ہوتا جو ڈرگس لیتا تھا اور جن کے تعلقات بعد میں ٹوٹ گئے تھے۔
اب اگر لڑکے کی جگہ لڑکی نے خودکشی کی ہوتی، تو بھی لوگ اسے ہی نشیڑی بتاکر قصور دیتے اور لڑکے کو شاباشی دیتے کہ وہ وقت رہتے ‘اس ٹائپ کی لڑکی’ سے بچ نکلا!ریا صرف گرفتار ہوئی ہیں۔ابھی اس معاملے میں ان پر چارج شیٹ بھی پیش نہیں ہوئی ہے، پھر ان کا سزا پانا تو دور کی بات ہے۔
باوجود اس کے متعدد چینلوں پر ریا کی اجتماعی طورپر مذمت اور انہیں بےشرمی سے ولن کے روپ میں پیش کیا جانا صدیوں پرانے انہی عقائد کا نتیجہ تھا۔اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مہابھارت میں بھری راج سبھا میں دروپدی کی توہین کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں تھا۔ دریودھن اور دشاسن اب بھی زندہ ہیں اور ٹی وی اسٹوڈیو میں پائے جاتے ہیں۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ ان لوگوں نے ناظرین کو مشتعل کرنے کی نیت سے ریا کی نجی تصویریں اور ویڈیو بھی خوب دکھائے، جن میں وہ بکنی یا ویسے دیگر کپڑوں میں تھی۔ یہ ‘اجتماعی ورچوئل مولیسٹیشن’ نہیں تو اور کیا ہے؟
سشانت معاملے کو لےکر مختلف ٹی وی چینلوں کی کوریج(بہ شکریہ: متعلقہ چینل/ویڈیوگریب)
ان چینلوں نے عوام کی قانون سے عدم واقفیت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نارکوٹکس کنٹرول بیورو نے دعویٰ کیا کہ ریا نے ان کے سامنے جرم قبول کر لیا ہے۔محض اس بنیاد پر سب نے ریا کو مجرم مان لیا۔
کسی نے ایک بار بھی نہیں بتایا کہ
انڈین ایویڈنس ایکٹ کے سیکشن 25 کے تحت
پولیس کے سامنے کیا گیااعتراف جرم عدالت میں قابل قبول نہیں ہوتا۔ پولیس کے سامنے پٹائی یااذیت کے ڈر سے کوئی بھی کچھ بھی بول دے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
آپ کو یاد دلا دیں کہ قرون وسطی کے یورپ میں خواتین کو جادوگرنی بتاکر ‘
وچ ٹرائل’ہوا کرتے تھے، جن کے بعد پچاسوں ہزارخواتین کو ستونوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس وقت اذیت دےکر(ٹارچر)خواتین سے جرم قبول کروا لیا جاتا تھا۔ریا کا بھی‘میڈیا ٹرائل’نہیں ہوا ہے، ‘وچ ٹرائل’ ہوا ہے۔
اس پورے ایپی سوڈ میں چینلوں نے اور ان پر آکر بڑھ چڑھ کر بیان دینے والے پولیس حکام نے سپریم کورٹ کے تین اور کیرل ہائی کورٹ کے ایک آرڈرکی سراسر خلاف ورزی کی ہے۔سپریم کورٹ نے اگست 2014، فروری 2017، اور ستمبر 2018 میں اور کیرل ہائی کورٹ نے اگست 2020 میں واضح آرڈر دیے ہیں کہ جانچ کے دوران میڈیا کو بریفنگ نہ کی جائے۔
کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ گرفتار شخص آگے چل کر رہا بھی ہو سکتا ہے اور اس لیے اس کا چہرہ ٹی وی پر دکھایا جانا اس کی عزت کو ہمیشہ کے لیے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پر یہاں تو چینلوں کا بس چلتا تو ریا کے بیڈروم میں ہی پہنچ جاتے!آپ نے یہ بھی غور کیا ہوگا کہ رپورٹرس کے جھنڈ ریا کے گرد کس قدر بھیڑ لگائے رہتے تھے اور دھکامکی کر رہے ہوتے تھے۔
کورونا کے وقت جب ہر جگہ سماجی دوری کی نصیحت دی جا رہی ہے، ایسے وقت میں اگر اس بھیڑبھاڑ کی وجہ سے ریا کو کورونا ہو گیا، تو اس کے لیے کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائےگا؟ریا کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کے لیے صرف چینل ہی ذمہ دار نہیں ہیں، ان کے ناظرین بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ ٹی آر پی کے علاوہ ان چینلوں کا اپناسیاسی ایجنڈہ بھی ہے۔ لیکن وہ میڈیا کی سماجی ذمہ داری کو طاق پررکھ کر، جان بوجھ کر ناظرین کے لاشعور میں چھپی عورت دشمنی اور بیہودگی کو بھنا رہے تھے۔وہ جان رہے تھے کہ ایک لڑکی کو اس طرح سے عوامی طورپرہراساں ہوتا دیکھنے میں ناظرین کو اسی لذت کا احساس ہو رہا ہے جو کبھی امریکہ اور انگلینڈ میں لوگوں کو عوامی طورپر پھانسیاں دیکھنے میں ہوتی تھی، جس کے لیے وہ میلوں کی طرح جمع ہوا کرتے تھے۔
قارئین، دھیان رکھیں کہ ریا صرف ایک انسان ہے۔ سماج کے اوپر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ قصوروار پائی جاتی ہے یابےقصور ثابت ہو جاتی ہے۔
لیکن جہاں کروڑوں لوگ ٹی وی پر آنکھیں گڑائے ریا کے ساتھ ہو رہے ایک ایک‘ظلم’ کا اپنی نفرت کے ساتھ مزہ لے رہے تھے اور وہ بھی اس وقت جب ملک کورونا، بےروزگاری، لڑھکتی معیشت اور چین کے تجاوزات جیسے مسئلوں سے گھرا تھا، تو ہمارے قومی کردار کی یہ کمزوری یقینی طور پرباعث تشویش ہے۔
ریا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے، ریا کا اتنا پردہ فاش نہیں کیا، جتنا ہندوستانی معاشرت کی چھپی بیہودگی اورعورت مخالف رویےکو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔
(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )