‘بلڈوزرکارروائی’ کے خلاف دائر درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک اس سلسلے میں رہنما خطوط طے نہیں ہو جاتے، تب تک اس کے سابقہ فیصلے کے مطابق اس طرح کی کارروائیوں پر پابندی جاری رہے گی۔
نئی دہلی: ملک بھر میں ‘بلڈوزر کارروائی ‘ کے معاملے میں سپریم کورٹ نے منگل (1 اکتوبر) کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے کہا کہ جب تک فیصلہ نہیں آتا، ملک بھر میں بلڈوزر کارروائی پر پابندی جاری رہے گی۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس وشوناتھن کی بنچ نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں رہنما اصول بنائیں گے، تب تک بلڈوزر پر عبوری پابندی کا فیصلہ جاری رہے گی۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اس کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کوعدالت کی توہین تصور کیا جائے گا۔ اگر توڑ پھوڑ کی کارروائی غیر قانونی پائی گئی تو جائیداد واپس کرنی ہوگی۔
عدالت نے ایک بار پھر واضح کیا کہ بلڈوزر ایکشن پر پابندی میں غیرقانونی تجاوزات شامل نہیں ہوں گی،چاہے سڑک ہو، ریلوے لائن ہو، مندر ہو یاپھر درگاہ، غیر قانونی تجاوزات کو ہٹایا ہی جائے گا کیونکہ عوامی تحفظ سب سے اہم ہے۔
مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش کی حکومتوں کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے عدالت نے پوچھا کہ کیا قصوروار قرار دینے کے بعد بھی کسی کی جائیداد کومنہدم کیا جا سکتا ہے؟ اس پر تشار مہتہ نے کہا کہ نہیں، یہاں تک کہ قتل، ریپ اور دہشت گردی کے مقدمات کی بنیاد پر بھی نہیں۔
معلوم ہو کہ جمعیۃ علماء ہند نے حال ہی میں یوپی، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں پیش آئے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بلڈوزر کی کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس درخواست میں جمعیۃ نے اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ درخواست میں حکومت سے ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر چلانے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
لائیو لاء کے مطابق ،سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ایک سیکولر ملک ہیں، ہم تمام شہریوں کے لیے گائیڈ لائن جاری کریں گے۔ غیر قانونی تعمیرات ہندو یا مسلمان کوئی بھی کر سکتا ہے۔ ہماری ہدایات سب کے لیے ہوں گی، خواہ وہ کسی مذہب یا برادری سے تعلق رکھتا ہو۔
عدالت نے کہا کہ ہم یہ واضح کریں گے کہ محض کسی مجرمانہ معاملے میں ملزم یا مجرم پایا جانا جائیداد کو منہدم کرنے کی بنیاد نہیں ہو گا۔ اس کے لیے تعمیرات میں میونسپل قانون یا ٹاؤن پلاننگ کے قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
اس پر تشار مہتہ نے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف بلڈوزر کیس بہت کم ہوں گے۔ یہ معاملےدو فیصد ہوں گے۔ لیکن بلڈوزر سے متعلق ایسے بہت سے معاملات ہیں۔ اس پر جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ جب تک میونسپل کارپوریشن کے اہلکار ان پر کوئی فیصلہ نہیں لیتے، اس وقت تک کوئی نیم عدالتی نگرانی بھی نہیں ہے۔ یہ دو فیصد کی بات نہیں ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ساڑھے چار لاکھ واقعات میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔
اس پر تشار مہتہ نے کہا کہ ہندو مسلم کی بات کیوں آتی ہے۔ وہ ہمیشہ عدالت جاسکتے ہیں، اس میں کوئی امتیاز کہاں ہے۔ جسٹس وشوناتھ نے سماعت کے دوران کہا کہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا جیسے عدالتی معائنہ کیا جائے۔
غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے 17 ستمبر کو ملک بھر میں بلڈوزر کی کارروائی کے خلاف عبوری حکم جاری کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر انہدامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں کئی ریاستی حکومتوں نے سنگین جرائم میں ملوث لوگوں کے مکانات اور جائیدادوں کو منہدم کیا ہے، جس کے خلاف لوگوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ عرضی گزاروں نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں توڑ پھوڑ کے حالیہ واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔
حال ہی میں مدھیہ پردیش میں ایک خاندان کا آبائی گھر منہدم کر دیا گیا ۔ ادے پور میں میونسپل کارپوریشن نے ایک کرایہ دار کے مکان کو مبینہ طور پر جنگل کی زمین پر ‘تجاوزات’ کے الزام میں منہدم کردیا۔ گھر کو گرانے کی کارروائی کرایہ دار کے 15 سالہ بیٹے کو دوسری برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم جماعت کو چھرا گھونپنے کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے کچھ وقت بعد ہوئی، جس کی وجہ سے شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔
اس سے قبل، جب عدالت نے 2022 میں کیس کی سماعت کی تھی، تو جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل دشینت دوے نے کہا تھا کہ عدالت کو اس مسئلے کو بڑے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کو ‘غیر معمولی طور پر سنگین صورتحال’ کا سامنا ہے۔ بلڈوزر کے ذریعے انصاف دیا جا رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی ملبے میں دب گئی ہے۔
دوے نے دلیل دی تھی کہ طاقتور ریاستی حکومتیں اور ان کے عہدیدار میونسپل قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘انتقام لینے’ کے لیے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کے نجی مکانات اور عمارتوں کو مسمار کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے پیچھےتھے۔