سی جے آئی جنسی استحصال معاملہ: مرکزی حکومت سے اختلاف کے سبب استعفیٰ دے سکتے ہیں اٹارنی جنرل

04:21 PM May 13, 2019 | ایم کے وینو

دی وائر کی خصوصی رپورٹ: سی جے آئی پر لگے جنسی استحصال کے الزامات کی جانچ‌کر رہی کمیٹی میں ایک باہری ممبر شامل کرنے کی مانگ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو خط لکھا تھا۔اس پر مرکزی حکومت کے ذریعے ان کو وضاحت دینے کو کہا گیا کہ یہ ان کی’ذاتی رائے ‘ہے نہ کہ مرکز کی۔

اٹارنی جنرل  کے کے  وینو گوپال۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کے خلاف لگے جنسی استحصال کے الزامات کا نپٹارہ جس طرح سے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے ذریعے کیا گیا، اس کو لےکر مرکزی حکومت اور اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔دی وائر کو ملی جانکاری کے مطابق اٹارنی جنرل نے گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو ایک خط لکھاتھا، جس میں سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات کی تفتیش کے لئے تشکیل کی گئی اسپیشل انٹرنل کمیٹی میں باہری ممبروں کو شامل کرنے کی پرزور سفارش کی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل اس معاملے سے جڑی انتہائی متنازعہ خصوصی سماعت، جہاں سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے مرکز کی طرف سے ہندوستان کے چیف جسٹس کا بچاؤ کیا تھا-میں موجود تھے۔اس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو ایک خط لکھ‌کر یہ کہا کہ خاتون کے ذریعے لگائے گئے الزامات کی تفتیش کرنے کے لئے بنائی گئی کسی بھی کمیٹی میں باہری ممبر، بہتر ہو کہ وہ کوئی ریٹائرڈ خاتون جج ہوں، کو شامل کیا جانا شفافیت اور غیر جانبداری کے کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔یہی بات جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے ذریعے الگ سے لکھے گئے ایک خط میں بھی دوہرائی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو تحریری طور پر اپنی رائے بھیجے جانے کے بعد مرکز نے وینو گوپال سے اپنے عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا۔

ان پر یہ دباؤ بھی ڈالا کہ وہ اس خط کو اپنی ذاتی رائے قراردیں اور واضح کریں کہ اس کو مرکزی حکومت کی رائے نہ مانی جائے۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل نے ایک دوسرا خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اور اس کو حکومت کی رائے نہ مانا جائے۔ذرائع کی مانیں تو ایک ایسے اہم موضوع پر اٹارنی جنرل اور حکومت کے درمیان اتنے شدید اختلافات پیدا ہو جانے کے بعد وینو گوپال جلد ہی ایک قانون داں اور آئین کے  ماہر کے بطور اپنی عزت بچانے کے لئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے لئے مجبور ہو سکتے ہیں۔88 سال کے اٹارنی جنرل کا قانونی تجربہ سپریم کورٹ کے ہرایک جج سے 20 سال سے بھی زیادہ ہے۔ قانونی پیشے میں ان کو جو وقار حاصل ہے، اس کو دیکھتے ہوئے وینو گوپال نے اپنے مداحوں کو تب ضرور مایوس کیا تھا جب الیکشن بانڈ کی پرائیویسی کو لےکر حکومت کی طرف سے یہ کہا تھا کہ رائےدہندگان کے لئے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے کے ذرائع کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے اس وقت بھی اپنے عہدے کے لحاظ سے کام نہیں کیا تھا، جب انہوں نے دی ہندو کے ذریعے شائع رافیل معاہدے سے متعلق دستاویزوں کو’چوری ہوا ‘بتایا، لیکن بعد میں انہوں نے وضاحت دی کہ یہ دستاویز فوٹوکاپی کرائے گئے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ شاید اٹارنی جنرل نے اب مبینہ جنسی استحصال کے معاملے میں اپنے لئے لکشمن ریکھا کھینچنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ اسی معاملے میں مرکزی حکومت خود کو ہندوستان کے چیف جسٹس کے ‘نجات دہندہ’کے طور پر پیش کرنے میں لگی ہے-بھلےہی اس کے لئے غیر جانبدارانہ اور مناسب کارروائی  سے ہی سمجھوتہ کیوں نہ کرنا پڑے۔

اگر اگلے کچھ دنوں میں اٹارنی جنرل استعفیٰ دے دیتے ہیں، تو اس سے اس معاملے میں مرکزی حکومت کے رویے پر بھی سوال اٹھیں‌گے، جس سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اعتماد پر گہرا اثر پڑے‌گا۔