سپریم کورٹ میں دائر توہین عدالت کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند نے جنوری 2022 میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ہمیں سپریم کورٹ اور آئین پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ جو لوگ سپریم کورٹ آف انڈیا پر بھروسہ کرتے ہیں ، وہ کتے کی موت مریں گے۔
یتی نرسنہا نند، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو اتر پردیش کے غازی آبادکے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری ہیں اور کٹر ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند کو گزشتہ سال عدلیہ کے خلاف ان کےمبینہ توہین آمیز تبصرے کے لیے دائر توہین عدالت کی عرضی پر نوٹس جاری کیاہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس اے ایس بوپنا اورجسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے نرسنہانند کو سماجی کارکن شچی نیلی کی طرف سے دائر عرضی پر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے، جنہوں نے 14 جنوری 2022 کو ایک یوٹیوب چینل کے ساتھ انٹرویو کے دوران ان کے(نرسنہانند) کی طرف سے دیےگئے مبینہ ہتک آمیز بیان کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ نتیا رام کرشنن کے توسط سے دائر اپنی عرضی میں نیلی نے انٹرویو کے اقتباسات نقل کیے ہیں، جس میں نرسنہانند کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ، ‘ہمیں سپریم کورٹ اور آئین پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔’
عرضی گزار کے مطابق، نرسنہانند نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘جو لوگ سپریم کورٹ آف انڈیا پر بھروسہ کرتے ہیں وہ کتے کی موت مریں گے’۔
یہ انٹرویو دسمبر 2021 میں ہری دوار میں ایک پروگرام کے دوران کی گئی نفرت انگیز تقاریر(ہیٹ اسپیچ) سے متعلق ایک معاملے کے پس منظر میں کیا گیا تھا، جو سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
توہین عدالت کی عرضی میں نیلی نے کہا ہے کہ ،’توہین کرنے والے کی بہت زیادہ رسائی اور اثر و رسوخ ہے۔ ان کے اس بیان کو ان کے پیروکاروں اور ہمدردوں نے دور دور تک پھیلایا ہے، جس سے اس عدالت کے تئیں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔ جس سے اس ادارہ کو کمزور کیا جا رہا ہے اور اس کی امیج کو خراب کیا جا رہا ہے۔
توہین عدالت ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت نرسنہا نند کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئےعرضی میں کہا گیا ہے کہ ،’ایسے لوگوں کےمسلح اور عسکریت پسند گروہ سے عام لوگوں اور مدعیان کو خطرہ ہے، جو نہ تو قانون سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اسے توڑنے سے ،اس لیےاس عدالت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
معلوم ہو کہ کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند اتر پردیش کے غازی آباد واقع ڈاسنہ مندر کے پجاری ہیں، جو اپنے بیانات کی وجہ سے پہلے بھی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ دسمبر 2021 میں اتراکھنڈ کے ہری دوار دھرم سنسد میں یتی نرسنہانند نے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھل کرنفرت انگیز بیان دینے کے ساتھ ان کی نسل کشی کی بھی اپیل کی تھی۔
دھرم سنسد میں یتی نرسنہانند نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے کہا تھاکہ جو شخص
‘ہندو پربھاکرن’ بنے گا وہ اسے ایک کروڑ روپے دیں گے۔
دھرم سنسد کیس میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے نرسنہانند نے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کی تھیں۔
ستمبر 2022 میں ایک مذہبی تقریب میں ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے کے الزام میں پولیس نے یتی نرسنہانند، آل انڈیا ہندو مہاسبھا کی قومی جنرل سکریٹری پوجا شکن پانڈے اور ان کے شوہر اشوک پانڈے کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تقاریر کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا۔ اس ویڈیو کلپ میں نرسنہانند مبینہ طور پر قرآن کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہوئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور مدارس کے خلاف اشتعال انگیز تبصرہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ویڈیو کلپ میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے اداروں کو گرا دیا جانا چاہیے۔
شمالی دہلی کے براڑی میں 3 اپریل کو 2022منعقد ‘ہندو مہاپنچایت’ پروگرام میں نرسنہانند نے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی تھی۔ اس سلسلے میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیاتھا۔