سپریم کورٹ کے ذریعے بنائی گئی کمیٹی کو پیگاسس جاسوسی معاملے میں سات نکات پر جانچ کرنے اور سات نکات پر سفارش کی ہدایت دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ سرکار کےقومی سلامتی کا حوالہ دینےمحض سے عدالت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اسرائیلی اسپائی ویئر‘پیگاسس’ کے ذریعے کچھ ہندوستانی شہریوں کی مبینہ جاسوسی کے معاملے کی جانچ کے لیے بدھ کو
ماہرین کی تین رکنی کمیٹی بنائی اور کہا کہ ہر شہری کو پرائیویسی کی خلاف ورزی سے تحفظ فراہم کرانا ضروری ہے۔
کورٹ نے کہا کہ ‘سرکار کےقومی سلامتی’کاحوالہ دینےمحض سے عدالت‘خاموش تماشائی’نہیں بن سکتی۔
چیف جسٹس این وی رمنا،جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہما کوہلی کی بنچ نے کہا کہ پہلی نظر میں موجودہ شواہد‘قابل غور معلوم ہوتے ہیں۔’
بنچ نے مرکز کی اپنی کمیٹی بنانےکی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ ایسا کرنا تعصب کے خلاف قائم عدالتی اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔
عدالت نے اپنے سابق جج آروی رویندرن سے تین رکنی کمیٹی کے کام کاج کی نگرانی کرنے کی درخواست کی اورکمیٹی سے جلد ہی رپورٹ داخل کرنے کو کہا۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رویندرن‘سائبر سیکیورٹی، ڈیجیٹل فارنسک، نیٹ ورک اور ہارڈویئر’ کمیٹی کے کام کاج کی نگرانی کریں گے۔ کمیٹی کے تین ممبر نوین کمار چودھری، پربھارن پی اور اشون انل گمستے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ سابق آئی پی ایس افسر آلوک جوشی اور سندیپ اوبیرائے (انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اسٹینڈرڈائزیشن/انٹرنیشنل الیکٹرو ٹیکنیکل کمیشن کی جوائنٹ ٹیکنیکل کمیٹی میں ذیلی کمیٹی کے چیئرمین) جسٹس رویندرن کمیٹی کے کام کاج کی نگرانی کرنے میں مدد کریں گے۔
بنچ نےاس معاملے میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، جانےمانے سینئر صحافی این رام اور ششی کمار سمیت دیگر کی عرضیوں کو آگے کی شنوائی کے لیے آٹھ ہفتے بعد کا وقت دیا ہے۔
کورٹ نے اس کمیٹی کو بنیادی طور پر سات نکات پر جانچ کرنے کا حکم دیا ہے۔
کیا ہندوستانی شہریوں کے فون سے ڈیٹا، بات چیت یا دیگر انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا تھا؟
اس طرح کےاسپائی ویئر حملے کے شکار لوگوں یامتاثرین میں کون کون شامل ہیں، اس کی تفصیلات کو مرتب کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
سال2019 میں پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہندوستانی شہریوں کے وہاٹس ایپ ہیک کیےجانےکی خبریں آنے کے بعدحکومت ہند نے اس سلسلے میں کیا قدم اٹھائے ہیں؟
کیاحکومت ہند یا ریاستی حکومت یا ہندوستان کی کسی مرکزی یا صوبائی ایجنسی کے ذریعے پیگاسس اسپائی ویئر خریدا گیا ہے، تاکہ اسے ہندوستانی شہریوں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔
کیاہندوستان کی کسی سرکاری ایجنسی کے ذریعےشہریوں پر پیگاسس اسپائی ویئر کا استعمال کیا گیا ہے، اور اگر ایسا ہوا ہے تو وہ کس قانون، ضابطہ، ہدایات، پروٹوکال یا قانونی عمل کے تحت کیا گیا تھا؟
کیا کسی گھریلوشخص یاادارے نے ہندوستانی شہریوں پر پیگاسس کا استعمال کیا ہے، اگر ایسا ہے، تو کیا اس کی منظوری تھی؟
اس کےعلاوہ کمیٹی اپنے ضرورت اور سہولت کے مطابق اس کیس سے جڑے کسی بھی دوسرےمعاملے پر غور کرکے اس کی جانچ کر سکتی ہے۔
معلوم ہو کہ پیگاسس پروجیکٹ کےتحت دی وائر نے اپنے کئی رپورٹس میں بتایا ہے کہ کس طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کےڈیجیٹل فارنسک جانچ میں پتہ چلا تھا کہ اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے کئی فون کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کی ہیکنگ ہوئی تھی۔
دی وائر نے ایسے161 ناموں (جس میں صحافی، وزیر،لیڈر، کارکن، وکیل وغیرہ شامل ہیں)کا انکشاف کیاتھا جن کی پیگاسس کے ذریعے ہیکنگ کیے جانے کا خدشہ ہے۔
اس میں سےدی وائر کےدوبانی مدیران سدھارتھ ورداجن اور ایم کے وینو،انتخابی حکمت عملی کار پرشانت کشور،دوسرے صحافی جیسے سشانت سنگھ،پرنجوئےگہا ٹھاکرتا اور ایس این ایم عابدی، مرحوم ڈی یو پروفیسر ایس اےآر گیلانی،کشمیری لیڈربلال لون اور وکیل الجو پی جوزف کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔
این ایس او گروپ یہ ملٹری گریڈاسپائی ویئر صرف سرکاروں کو ہی فروخت کرتی ہے۔ حکومت ہند نے پیگاسس کی خریدار ی کو لےکر نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی تسلیم کیا ہے۔
ہندوستان کےدفاع اور آئی ٹی وزارت نے پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال سے انکار کر دیا تھا۔ چونکہ مودی سرکار نے اس نگرانی سافٹ ویئر کے استعمال اور اسے خریدنے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس لیے کورٹ کو آزادانہ کمیٹی بناکر جانچ کرنے کا حکم دینا پڑا ہے۔
سپریم کورٹ نے کمیٹی کو مذکورہ بالا نکات پر جانچ کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل نکات پر سفارش دینے کی ہدایت دی ہے؛
نگرانی کو لےکر موجودہ قانون اورطریقہ کار کو نافذ کرنے یا ان میں ترمیم کرنےکے سلسلے میں اور پرائیویسی کے بہتر حق کو محفوظ کرنے کے لیے۔
ملک اور اس کے اثاثوں کی سائبر سلامتی کو بڑھانے اور بہتر بنانے کے سلسلے میں۔
اس طرح کے اسپائی ویئر سے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے ذریعےشہریوں کے پرائیویسی کے حق پر حملے سے روک تھام کو یقینی بنانے کے سلسلے میں۔
شہریوں کو ان کے آلات کی غیرقانونی نگرانی کے شبہ پر شکایت کرنے کے لیے ایک سسٹم کے قیام کے سلسلے میں۔
سائبر حملے سے متعلق خطرے کا اندازہ کرنے، ملک میں سائبر حملے کےواقعات کی جانچ کرنے اور سائبر سلامتی کی کمزوریوں کی جانچ کے لیے ایک آزادانہ پریمیئر ایجنسی کےقیام کے سلسلے میں۔
کسی بھی ایڈہاک سسٹم کےسلسلے میں، جو اس عدالت کے ذریعے شہریوں کے حقوق کی سلامتی کے لیے عبوری تدبیرکی شکل میں استعمال کیا جا سکے، جو پارلیامنٹ کے ذریعے اس سلسلے میں قانون بنانے تک کارگر ہو سکے۔
کسی دوسرے معاون معاملے پر جو کمیٹی کومناسب لگے۔
اس کے ساتھ ہی عدالت نے اس کمیٹی کو کئی سارے اختیار دیےہیں کہ وہ اپنے کام کو اچھی طرح سے پورا کر سکیں۔
کمیٹی کو اپنے خودکے ضابطہ تیار کرنے، اپنی ضرورت کے مطابق کوئی بھی جانچ کرنے اور جانچ کے سلسلے میں کسی بھی شخص کا بیان لینے کامجاز کیا گیا ہے۔کمیٹی اپنی جانچ کےدائرے میں کسی بھی اتھارٹی یا شخص کے ریکارڈ کی بھی مانگ کر سکتی ہے۔
جسٹس رویندرن کو اپنےکاموں کی ذمہ داری میں کسی بھی ورکنگ یا سبکدوش افسروں،قانونی ماہرین یا تکنیکی ماہرین کی مدد لینے کی آزادی دی گئی ہے۔
کورٹ نے جسٹس رویندرن سے کمیٹی کے ممبروں کااعزازیہ طے کرنے کی بھی گزارش کی ہے۔ کورٹ نے مرکزی حکومت کو اس کی فوراً ادائیگی کی ہدایت دی ہے۔
اس کے علاوہ عدالت نے مرکز اورتمام ریاستی سرکاروں کو، ان کےماتحت تمام ایجنسیوں اور افسروں کے ذریعےکمیٹی کو مکمل تعاون کی ہدایت دی ہے۔
قومی سلامتی
معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے قومی سلامتی کا حوالہ دینے کی مرکز کی پرزور دلیلوں پر غور کیا اور انہیں یہ کہتے ہوئے نامنظور کر دیاکہ ،‘اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سرکار ہر بار ‘قومی سلامتی’ کاحوالہ دےکر اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔’
بنچ نے کہا کہ ‘قومی سلامتی وہ بہانہ نہیں ہو سکتا، جس کا ذکر ہونے محض سے کورٹ خود کو معاملے سے دور کر لے۔ حالانکہ اس عدلیہ کو قومی سلامتی کے میدان میں دخل اندازی کرتےہوئے محتاط رہنا چاہیے، لیکن عدالتی تجزیہ کے لیے اسے ممنوعہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔’
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مرکز کو ‘عدالت کے سامنے پیش اپنے نقطہ نظرکو منصفانہ ٹھہرانا چاہیے۔ سرکار کےقومی سلامتی کا حوالہ دینےمحض سے عدلیہ خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔’
عدالت نے کہا کہ تضادات سے پراس دنیا میں کسی بھی سرکاری ایجنسی یا کسی نجی ادارے پر بھروسہ کرنے کے بجائے، تعصبات سے پاک،آزاد اورقابل ماہرین کو ڈھونڈنا اور ان کا انتخاب کرنا ایک بے حد مشکل کام تھا۔
بنچ نے کہا، ‘ہم یہ واضح کرتے ہیں کہ ہماری کوشش سیاسی بیان بازی میں خود کو شامل کیے بغیر ہی آئینی عزائم اور قانون کی حکمرانی کو بنائے رکھنے کی ہے۔’بنچ نے کہا کہ یہ عدالت ہمیشہ سے ہی سیاست کے مکڑجال میں داخل نہیں ہونے کےلیےمحتاط رہتی ہے۔
بنچ نے کہا، ‘ایک مہذب جمہوری معاشرے کے ارکان مناسب رازداری کی توقع رکھتے ہیں۔ پرائیویسی صرف صحافیوں یا سماجی کارکنوں کے لیےتشویش کا معاملہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والے جمہوری ملک میں، آئین کے تحت کسی بھی من مانے طریقے سے لوگوں کی جاسوسی کی اجازت نہیں ہے، سوائے مناسب قانونی تحفظات کے، قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے۔
بنچ نے گزشتہ13ستمبر کو اس معاملے میں شنوائی پوری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیامرکز نے شہریوں کی مبینہ جاسوسی کے لیےغیرقانونی طریقے سے پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیایا نہیں؟
قابل ذکر ہے کہ یہ عرضیاں اسرائیل کی فرم این ایس او کے ‘پیگاسس اسپائی ویئر’ کا استعمال کرکے سرکاری اداروں کے ذریعےمبینہ طور پر شہریوں، سیاستدانوں اور صحافیوں کی جاسوسی کرائے جانے کی رپورٹ کی آزادانہ جانچ کی اپیل سے جڑی ہیں۔
غورطلب ہے کہ
دی وائر سمیت بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےرہنما،صحافی، کارکن، سپریم کورٹ کے عہدیداروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ
ممکنہ نشانے پر تھے۔
اس کڑی میں18جولائی سے دی وائر سمیت دنیا کے 17 میڈیا اداروں نے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبروں کے ڈیٹابیس کی جانکاریاں شائع کرنی شروع کی تھی،جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ ممکنہ سرولانس کے دائرے میں تھے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)