سپریم کورٹ کے جسٹس آر ایف نریمن نے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئےسالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا کہ برائے مہربانی اپنی حکومت کو سبری مالا معاملےمیں سنائے گئے عدم اتفاق کے فیصلے کو پڑھنے کے لئے کہیں، جو بہت ہی اہم ہے…ہمارا فیصلہ کھیلنے کے لئے نہیں ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جسٹس آر ایف نریمن نے جمعہ کو سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کو ڈانٹ لگاتے ہوئے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں سے نہیں کھیل سکتی ہے۔ جسٹس نریمن نے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا، ‘برائے مہربانی اپنی حکومت کو سبری مالا معاملے میں جمعرات کو سنائے گئے عدم اتفاق کے فیصلے کو پڑھنے کےلئے کہیں، جو بہت ہی اہم ہے… ہمارا فیصلہ کھیلنے کے لئے نہیں ہے۔ اپنی حکومت سےکہیے کہ ہمارا فیصلہ اٹل ہے۔ ‘
بتا دیں کہ، جسٹس نریمن نے اپنی اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی طرف سےعدم اتفاق کا حکم لکھا تھا۔ جسٹس نریمن اور جسٹس چندرچوڑ سبری مالا معاملے کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ کے ممبر تھے اور انہوں نے سبری مالا مندر میں تمام عمر کے طبقے کی خواتین کو داخلے کی اجازت دینے سے متعلق ستمبر، 2018 کے عدالت کے فیصلے پرنظرثانی کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے جمعرات کو اکثریت کے فیصلے سے عدم اتفاق اظہارکیا تھا۔
جسٹس نریمن نے مہتہ سے یہ اس وقت کہا جب عدالت منی لانڈرنگ کے معاملے میں کانگریس کے رہنما ڈی کے شیوکمار کو ضمانت دینے کے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کوچیلنج دینے والی ای ڈی کی اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔ عدالت نے اس معاملے میں ای ڈی کی اپیل خارج کر دی۔
لائیو لا کے مطابق، شیوکمار کے معاملے کی سماعت والی بنچ میں جسٹس نریمن کے ساتھ جسٹس روندر بھٹ بھی تھے۔ بنچ نے شروع میں خودہی ای ڈی کی عرضی پر سماعت کرنے پر عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ حالانکہ، جب سالیسٹر جنرل بنچ سے لگاتار معاملے کو خارج نہ کرنے کی اپیل کرتے رہے تب جسٹس نریمن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کو لےکر تبصرہ کیا۔
جسٹس نریمن نے سبری مالا ریویومعاملے پر اپنے عدم اتفاق کے فیصلے سےاتھارٹیوں کو واقف کرانے کے لئے کہا، جہاں پر انہوں نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کےفیصلوں پر تعمیل ضروری ہے۔سبری مالاریویو معاملے میں جسٹس نریمن نے جو تبصرہ کیا تھا وہ کچھ گروپوں کے ذریعے کئے گئے تشدد کے متعلق تھا جس میں وہ سبری مالا مندر میں 10 سے 50 سال کی عمر کےطبقے کی خواتین کے داخلے کو روک رہے تھے۔
جسٹس نریمن نے سبری مالاریویو معاملے میں عدم اتفاق کے فیصلے کو سناتےہوئے کہا تھا، ‘آئین نے تمام محکمہ جات کی یہ ذمہ داری طے کی ہے کہ وہ اس عدالت کے فیصلے کو کسی بھی طرح نافذ کریں۔ قانون کی حکومت قائم کرنے کے لئے یہ طے کیا گیا ہے۔ اگر عدالت کے فیصلوں کو نافذ کروانے والے اس کو نافذ کرنے سے عدم اتفاق کریں گے تو قانون کی حکومت نہیں رہ جائےگی۔ ‘
جسٹس نریمن نے کہا کہ بھلےہی شہریوں کو آئینی طور سے فیصلوں کی تنقید کاحق ہو لیکن ان کو اعلیٰ ترین عدالت کے احکام یا ہدایتوں کی خلاف ورزی کرنے یا خلاف ورزی کے لئے اکسانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)