سپریم کورٹ نے اترپردیش میں ایک شہری پروجیکٹ کے لیے رہائشی مکانات کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے پر ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو پھٹکار لگائی ہے۔ عدالت نے کارروائی کو زیادتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘آپ بلڈوزر لے کر راتوں رات گھر نہیں گرا سکتے’۔
سپریم کورٹ (فوٹو : دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اترپردیش میں ایک شہری پروجیکٹ کے لیے رہائشی مکانات کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کے معاملے میں ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو پھٹکار لگائی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کیا اور افسران کے رویہ پر برہمی کا اظہار کیا۔
معلوم ہو کہ سال 2020 میں سی جے آئی بنچ نے منوج ٹبریوال آکاش کی شکایت پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت شروع کی تھی۔ منوج ٹبریوال کا گھر 2019 میں سڑک کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے لیے منہدم کر دیا گیا تھا۔ اس دوران کل 124 مکانات کو مسمار کیا گیا تھا۔
اس معاملے میں عدالت عظمیٰ نے پایا کہ مکانات کو مسمار کرنے سے پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اور نہ ہی ضابطے پر عمل کیا گیا۔
سماعت کے دوران سی جے آئی نے کہا کہ اتر پردیش حکومت کا دعویٰ ہے کہ ٹبریوال نے 3.7 مربع میٹر زمین پر قبضہ کیا ہواہے، لیکن حکومت اس کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘آپ لوگوں کے گھر اس طرح گرانا کیسے شروع کر سکتے ہیں؟ کسی کے گھر میں اس طرح گھسنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔’
سی جے آئی چندرچوڑ نے مزید کہا کہ یہ مکمل طور پر من مانی ہے۔ ضابطے پر عمل کہاں کیا گیا ہے؟ ہمارے پاس حلف نامہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔ آپ صرف سائٹ پر گئے اور لوگوں کو لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اطلاع دی گئی۔
لائیو لا کے مطابق، جسٹس پاردی والا نے بھی اس کارروائی کو زیادتی قرار دیا اور کہا کہ ‘آپ بلڈوزر لے کر راتوں رات گھر نہیں گرا سکتے۔ آپ گھر والوں کو گھر خالی کرنے کا وقت نہیں دیتے۔ گھریلو اشیاء کے بارے میں نہیں سوچتے؟ اس معاملے میں ضابطے پر عمل کیا جانا چاہیے۔’
اس سلسلے میں عدالت نے ریاستی حکومت کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ درخواست گزار کو معاوضہ کے طور پر25 لاکھ روپے ادا کرے۔ اس کے ساتھ ہی اتر پردیش کے چیف سکریٹری کو غیر قانونی انہدام کے ذمہ دار تمام افسران اور ٹھیکیداروں کے خلاف تحقیقات کرنے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دی گئی۔
معلوم ہو کہ اس سال ستمبر میں سپریم کورٹ نے حکومتوں کی طرف سے املاک کو مسمار کرنے کے حوالے سے قومی سطح پر رہنما اصول تجویز کیے تھے۔
غورطلب ہے کہ اتر پردیش ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں بلڈوزر کی کارروائی اکثر تعزیری اقدام کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی طرف سے بلڈوزنگ کی کارروائی پر پابندی کے ٹھیک ایک دن بعد ہی یوپی کے وزیر توانائی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے معتمد اور سابق بیوروکریٹ
اے کے شرما نے ریاستی حکومت کی طرف سے بلڈوزر کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا تھا۔