سپریم کورٹ نے شہریت ترمیم قانون کو لےکر چل رہی مخالفت کے دوران ہی کچھ ریاستوں اور قومی راجدھانی میں این ایس اے لگانے کے فیصلےکو چیلنج دینے والی عرضی پر کہا کہ ہم متفق ہیں کہ این ایس اے کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے لیکن سبھی کے لئے کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے انتشار پیداہو جائے گا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریت قانون کی مخالفت کر رہے لوگوں کے خلاف نیشنل سکیورٹی ایکٹ(این ایس اے) لگانے سےاتھارٹیوں کو روکنے کے لئے وہ کوئی وسیع حکم نہیں دے سکتا۔عدالت نے کہا کہ این ایس اے کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی لیکن اس بارے میں سبھی کے لئے کوئی ہدایت بھی نہیں دی جاسکتی کیونکہ مخالفت کے دوران سرکاری املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے اور یہ منظم بھی ہو سکتا ہے۔
جسٹس ارون مشرا اور جسٹس اندرا بنرجی کی بنچ نے شہریت ترمیم قانون کو لےکر چل رہی مخالفت کے دوران ہی کچھ ریاستوں اور قومی راجدھانی میں این ایس اے لگانے کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضی پر غور کرنے سے انکارکر دیا۔بنچ نے کہا، ‘ ہمارا موقف ہے کہ اس معاملے میں عام حکم نہیں دیا جا سکتا۔ ہم آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت حق کا استعمال نہیں کرسکتے۔ ہم متفق ہیں کہ این ایس اے کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے لیکن سبھی کےلئے کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے انتشار پیدا ہوگا۔ ‘
درخواست گزار وکیل منوہرلال شرما نے کہا کہ دہلی کے شاہین باغ اور دوسرے مقامات پر پر امن طریقے سے شہریت ترمیم قانون کی مخالفت ہو رہی ہے اور ریاستوں کو مخالفت کر رہے لوگوں کے خلاف اس سخت قانون کونافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔بنچ نے شرما سے کہا، ‘آپ ہمیں واضح طور پربتائیں جہاں ایسا ہوا ہے۔ ہم وسیع حکم نہیں دے سکتے۔ اگر وسیع ہدایت دی گئی تو اس سےانتشار پھیلےگا۔ آپ کو پتہ نہیں ہے کہ کولکاتا، تریپورہ اور آسام میں کیا ہو رہاہے۔ سرکاری املاک کو آگ لگائی جا رہی ہے اور یہ منظم بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں لوگوں کےپس منظر کے بارے میں جانکاری نہیں ہے۔ ‘
شرما نے راحت کے لئے بار بار گزارش کی اور کہاکہ پر امن طریقے سے مخالفت کر رہے لوگوں کے خلاف اس قانون کے تحت معاملہ درج کیاجا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو ان کو تحفظ دینا چاہیے۔اس پر بنچ نے کہا، ‘ اگر کوئی شخص تشدد میں ملوث ہے اور کئی مجرمانہ معاملوں میں ملوث تھا۔ تو حکومت کو کیا کرنا چاہیے۔ کیا حکومت کارروائی نہیں کرےگی۔’
بنچ نے شرما سے کہا کہ وہ ترمیم شدہ عرضی دائرکریں اور ان واقعات کا ذکر کریں جن میں سی اے اے کی مخالفت کر رہے لوگوں کے خلاف این ایس اے لگایا گیا ہے۔بنچ نے شرما سے یہ بھی کہا کہ شہریت ترمیم قانون کے کیس میں زیر التوا عرضی میں عبوری درخواست دائر کر کے مناسب راحت کی گزارش کر سکتے ہیں۔
شرما نے اس پر اپنی عرضی واپس لینے اور این ایس اےکی خلاف ورزی کی تفصیل کے ساتھ ترمیم شدہ عرضی دائر کرنے کی اجازت چاہی۔ بنچ نےان کو اس کی اجازت عطا کر دی۔شرما نے اس عرضی میں این ایس اے لگائے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ شہریت ترمیم قانون، این پی آر اوراین آر سی کی مخالفت کر رہے عوام پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہی یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
دہلی کے ایل جی انل بیجل نے 10 جنوری کو این ایس اے کی مدت 19 جنوری سے تین مہینے کے لئے بڑھا دی تھی۔ اس قانون کے تحت دہلی پولیس کو کسی فرد کو حراست میں لینے کا حق حاصل ہے۔ این ایس اے کے تحت پولیس کسی بھی فرد کو بغیر کسی مقدمہ کے 12 مہینے تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔اس عرضی میں شرما نے وزارت داخلہ، دہلی، اترپردیش، آندھرا پردیش اور منی پور حکومتوں کو فریق بنایا تھا۔
عرضی میں کہا گیا ہے پولیس کو حراست میں لئےگئے افراد پر این ایس اے لگانے کی اجازت دینے سے متعلق نوٹیفکیشن سے آئین کے آرٹیکل 19(1) (اظہاررائے اور بولنے کی آزادی) اور آرٹیکل 21 (جینے کے حقوق) کے تحت پیش کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ عرضی میں اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔اس کے علاوہ، عرضی میں این ایس اے کے تحت حراست میں لیے گئے افراد کی سماج میں بے عزتی اور شہرت کھونے کی وجہ سے 50-50 لاکھ روپے کامعاوضہ دلانے کی بھی اگزارش کی گئی تھی۔
ملک کے مختلف حصوں میں شہریت ترمیم قانون اوراین پی آر کے خلاف اس وقت مظاہرہ ہو رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)