سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ 15 ستمبر 2025 کو بی جے پی آسام یونٹ نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر ایک ویڈیو شیئر کیا، جس میں یہ ‘گمراہ کن اور جھوٹا بیانیہ’ پیش کیا گیا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں نہیں رہی تو مسلمان آسام پر قبضہ کر لیں گے۔ اس ویڈیو کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ. (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی آسام یونٹ کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے
ایک ویڈیو کو ہٹانے کی درخواست پر جواب طلب کیا ہے ۔
مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تیار کردہ ویڈیو میں آسام پر مسلمانوں کے ‘قبضہ’ کیے جانے کے من گھڑت اور تضحیک آمیز منظر کو دکھایا گیا ہے اور اسے ایسے مستقبل سے جوڑ دیا گیا ہے کہ اگر بی جے پی آئندہ انتخابات میں ہار جاتی ہے تو ایسا ہوسکتا ہے۔
ویڈیو کی غیر معمولی فرقہ وارانہ نوعیت نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کو جنم دیا۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس وکرم ناتھ اور سندیپ مہتہ کی بنچ نے درخواست گزار قربان علی اور سینئر ایڈوکیٹ انجنا پرکاش کے وکیل نظام پاشا کی دلیلیں سننے کے بعد یہ نوٹس جاری کیا۔ ان کی درخواست میں ویڈیو کے وسیع پیغام کے خطرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے – کہ کسی ریاست کا بدترین انجام مسلمانوں کے ہاتھوں اس پر قبضہ کرنا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی آسام یونٹ نے 15 ستمبر 2025 کو اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر ایک ویڈیو شیئر کیا، جس میں ایک ‘گمراہ کن اور غلط بیانیہ’ دکھایا گیا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں نہیں رہی تو مسلمان آسام پر قبضہ کر لیں گے۔
جیسا کہ
دی وائر نے ذکر کیا تھا، اس کے پرتشدد پیغام کے علاوہ اس اشتہار نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ دفعہ 123(3 اے) اور 125 دونوں ہی انتخابات کے دوران مذہبی بنیادوں پر اپیل اور دشمنی پر اکسانے سے منع کرتی ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن نےاس اشتہار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
لائیولا کے مطابق، پاشا نے عدالت کو بتایا، ‘آئندہ انتخابات کے سلسلے میں ایک ویڈیو پوسٹ کیا گیا ہے… اس میں دکھایا گیا ہے کہ اگر ایک خاص سیاسی جماعت اقتدار میں نہیں آتی ہے تو ایک خاص برادری اقتدار سنبھالے گی… اس میں ٹوپی اور داڑھی والے لوگ نظر آ رہے ہیں… (عدالت کی ہدایت کے مطابق) ایف آئی آر سوموٹو درج کی جانی چاہیے … اگر ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی ہے توہین عدالت کی کارروائی کی جانی چاہیے۔’
درخواست میں
استدلال کیا گیا کہ ریاستی حکومت تمام برادریوں کی محافظ ہوتی ہے اور آئین اسے مذہب، ذات، زبان، جنس یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کرنے سے واضح طور پر منع کرتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ‘اس طرح ایک منتخب حکومت پر منصفانہ، انصاف پسند اور سیکولر رہنے کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔’
درخواست میں کہا گیا کہ فرقہ وارانہ عداوت، بدامنی اور نفرت کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے اس ویڈیو کو فوری طور پر ہٹانا ضروری ہے۔
یہ معاملہ 27 اکتوبر کے لیےلسٹ کیا گیا ہے۔