مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کمشنر کی تقرری کے لئے بنائی گئی کمیٹی نے 14 ناموں کو شارٹ لسٹ کیا تھا جس میں سے 13 نوکرشاہ تھے۔ جس پر جسٹس سیکری نے کہا کہ ہم تقرری کو غلط نہیں ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن جب غیرنوکرشاہوں کے نام بھی تھے، تو ان میں سے کسی کی تقرری کیوں نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کیوں مودی حکومت انفارمیشن کمشنر کے عہدے کے لئے نوکرشاہوں کو ترجیح دے رہی ہے؟
انہوں نے کہا کہ 13 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت سرچ کمیٹی کے تمام ممبروں کے نام، شارٹ لسٹ کئے گئے امیدوار اور انتخاب کے لئے کیا طریقہ فالو کیا جا رہا ہے، ان تمام جانکاری کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔لیکن حکومت کے تمام چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے بعد یہ تمام جانکاری ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا۔سچدیوا نے کہا،یہ جانکاری تقرری کے عمل کے دوران عوامی کی جانی چاہیے تھی، نہ کہ تقرری کے بعد۔ پورے عمل میں شفافیت کی ضرورت ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ حکومت صرف سبکدوش یا کارگزار نوکرشاہ یا سرکاری بابو کی انفارمیشن کمشنر کے طور پر تقرری کر رہی تھی لیکن تقرری کے لئے کارکنان، سائنس دانوں، صحافیوں، وکیلوں اور دیگر جیسے اشخاص کے ناموں پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔اے ایس جی نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے عمل کے دوران ضروریات کی تعمیل کی ہے اور تفصیل ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی میں 280 امیدواروں نے درخواست دی تھی اور کچھ اسامی کو بھرا گیا تھا، جبکہ دیگر کے لئے کارروائی جاری ہے۔مغربی بنگال کی طرف سے پیش وکیل نے بنچ کو بتایا کہ ان کے پاس پہلے سے ہی ایک ریاست کے چیف انفارمیشن کمشنر اور تین ریاستی انفارمیشن کمشنر ہیں اور وہ چھے مہینے کے اندر صورت حال کا تجزیہ کریںگے اور دیکھیںگے کہ کیا ان کو اور ریاستی انفارمیشن کمشنر کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، آندھرا پردیش کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس تین ریاستی انفارمیشن کمشنر ہیں اور ایک خالی عہدے کو بھرنے کا عمل پہلے سے ہی چل رہا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے بنچ کو مطلع کیا کہ اتر پردیش میں 10 ریاستی انفارمیشن کمشنر حال ہی میں سبکدوش ہوئے ہیں اور انہوں نے اس تعلق سے عدالت میں ایک الگ درخواست دائر کیا ہے۔ بنچ نے ریاستوں سے موجودہ اسامی کو بھرنے کے لئے ان کے ذریعے اٹھائے گئے قدموں کی تفصیل دیتے ہوئے دو-تین دنوں کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کو کہا۔ اس سے پہلے عدالت نے مرکز اور ریاستوں کو چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی تقرری میں شفافیت بنائے رکھنے اور ویب سائٹ پر سرچ کمیٹی اور امید وار کی تفصیل اپلوڈ کرنے کے لئے کہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا انفارمیشن کمیشن ریٹائرڈ نوکرشاہوں کی آرام گاہ بنتا جا رہا ہے؟
گزشتہ سال جولائی میں، عدالت نے چیف انفارمیشن کمیشن اور ریاستی انفارمیشن کمیشن میں خالی عہدوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور مرکز اور سات ریاستوں کو عہدوں کو بھرنے کو لےکے معیّنہ مدت بتانے کے لئے ایک حلف نامہ دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔عدالت نے سات ریاستوں-مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ، گجرات، کیرل، اڑیسہ اور کرناٹک سے کہا تھا کہ وہ عہدوں کو بھرنے کے لئے معیّنہ مدت کے بارے میں جانکاری دیں۔ درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ گجرات اور مہاراشٹر جیسے کئی انفارمیشن کمیشن چیف انفارمیشن کمشنر کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ آر ٹی آئی قانون میں اس عہدے کے لئے ایک اہم کردار ہے، جس پر کمیشن کا انتظامیہ سنبھالنے کا بھی کام ہوتا ہے۔دلیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے وقت پر ڈھنگ سے تقرری کو متعین کرنے کے اپنے آئینی فرض کو نبھانے میں آر ٹی آئی قانون کے کام کاج کو ‘ ناکام کرنے ‘ کی کوشش کی ہے۔ (خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ) The post سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھا، انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر صرف نوکرشاہوں کی ہی تقرری کیوں ہوئی appeared first on The Wire - Urdu.