متنازعہ زرعی قوانین کےآئینی جواز کی جانچ کیے بناسپریم کورٹ کے اس پر روک لگانے کے قدم کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ کام نہیں ہے۔ اس سے پہلے ایسے کئی کیس جیسے کہ آدھار، الیکٹورل بانڈ، سی اے اےکو لےکر مانگ کی گئی تھی کہ اس پر روک لگے، لیکن عدالت نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے تین متنازعہ زرعی قوانین کےآئینی جوازکی جانچ کے بنا منگل کو ان پرعبوری روک لگا دی۔کورٹ کے اس قدم کوتنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے اور ماہرین نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کا یہ کام نہیں ہے۔ اس کا بنیادی کام قوانین کے آئینی جواز کو دیکھنا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ جہاں اس معاملے میں عرضی گزاروں کی جانب سےقوانین پر روک لگانے کی مانگ نہیں کی گئی تھی، اس کے باوجود کورٹ نے اس پر روک لگائی۔ وہیں دوسری طرف قبل میں کورٹ کے سامنے کئی ایسے کیس جیسے کہ آدھار، الیکٹورل بانڈ، سی اےاے آئے ہیں جہاں عدالت سے مانگ کی گئی تھی کہ کورٹ اس پر روک لگائے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔
اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے دلیل دی کہ کسی بھی قانون پر اس وقت تک روک نہیں لگائی جا سکتی، جب تک عدالت یہ نہ محسوس کرے کہ اس سے بنیادی حقوق یا آئینی منصوبوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔حالانکہ کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا کہ کسی قانون کےعمل پر روک لگانے سے اس عدالت کو کوئی روک نہیں سکتا ہے۔
اپنے اس قدم کو درست ٹھہرانے کے لیے عدالت نے ستمبر 2020 میں مراٹھا ریزرویشن پر لگائی گئی عبوری روک کا حوالہ دیا۔ حالانکہ بامبے ہائی کورٹ نے اس قانون کے آئینی جواز کو جانچنے کے بعد اس پر روک لگائی تھی، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج دیاگیا تھا۔
اس آرڈر میں بھی جسٹس رویندر بھٹ اور ایل ناگیشور راؤ کی بنچ نے کہا تھا کہ کسی بھی قانون پر روک لگاتے وقت ‘بہت زیادہ احتیاط’ کی ضرورت ہے اور روک تبھی لگائی جا سکتی ہے، جب واضح طور پر ایکٹ کی غیر آئینی حیثیت ثابت ہو جائے۔
It is cynical for another reason. A host of laws have been challenged before the Supreme Court in recent times, where arguments were *actually* made for prima facie unconstitutionality. The Court refused to stay any of these laws, and refused to even engage with the arguments.
— Gautam Bhatia (@gautambhatia88) January 12, 2021
حالانکہ عدالت نے زرعی قوانین پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ اس سے کسانوں میں‘بھروسہ’جگےگا اور کمیٹی سے بات چیت کے لیے آگے آئیں گے۔ حالانکہ کسان تنظیموں نے سپریم کورٹ کے ذریعےتشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے جانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں شامل لوگ قوانین کی حمایت کرنے والے ہیں۔
زرعی قوانین کے سلسلے میں کورٹ کا یہ قدم دیگر معاملوں کے بالکل الٹ ہے، جبکہ عرضی گزاروں نے خصوصی طور پر یہ گزارش کی تھی کہ اگران پر روک نہیں لگائی جاتی ہے تو یہ بنیادی حقوق کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سال 2015 میں آدھار کو چیلنج دینے والی عرضی میں یہی دلیل دی گئی تھی، لیکن کورٹ نے پلاننگ کمیشن کے محض ایک آرڈرکی بنیاد پر ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اسی طرح سال 2017 میں لائے گئے متنازعہ الیکٹورل بانڈ اسکیم کو چیلنج دینے والے عرضی گزاروں نے کئی بار کورٹ سے یہ گزارش کی کہ چونکہ اس کی وجہ سےسیاسی پارٹیوں کو ملنے والے چندے کی پرائیویسی بہت بڑھ گئی ہے اور یہ انتخابی عمل کے لیے بڑا خطرہ ہے، اس لیے اس پر روک لگائی جائے۔ لیکن عدالت نے پھر سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
وہیں کسان تنظیموں نے عدالت کی جانب سے بنائی کمیٹی کو منگل کو تسلیم نہیں کیااور کہا کہ وہ کمیٹی کےسامنے پیش نہیں ہوں گے اور اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔سنگھو بارڈر پر پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کسان رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ عدالت کی تشکیل کردہ کمیٹی کے ممبر‘سرکار کےحامی’ہیں۔
غورطلب ہے کہ اس سے پہلے مرکز اور کسانوں کے بیچ ہوئی آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی کوئی حل نکلتا نظر نہیں آیا کیونکہ مرکز نے متنازعہ قانون کو رد کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی‘گھر واپسی’ صرف قانون واپسی کے بعد ہوگی۔
مرکز اور کسان رہنماؤں کے بیچ 15 جنوری کو اگلی بیٹھک مجوزہ ہے۔ حالانکہ، اس دوران ایسی خبریں آئی تھیں کہ سرکار نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیں۔حالانکہ، اس کے بعد کسان تنظیموں نے کہا کہ قانون سرکار نے بنایا ہے اور ہم اسی سے قانون واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں او رسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔
سوموار کو عدالت نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں سے کہا، ‘آپ کو بھروسہ ہو یا نہیں، ہم بھارت کی سب سے بڑی عدالت ہیں، ہم اپنا کام کریں گے۔’
معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔