سپریم کورٹ نے بہار حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ شراب بندی کا مسئلہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور ہر ریاست کو اس سے نمٹنے کے لیے قانون بنانے کا حق ہے، لیکن اس پر کچھ مطالعہ ہونا چاہیے تھاکہ اس سے کتنے معاملات بڑھیں گے، کیا ہوگا،کس طرح کے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہوگی اور کتنی تعداد میں ججوں کی ضرورت پڑے گی۔
نئی دہلی: بہار حکومت نے منگل کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ ریاست میں سخت شراب بندی قانون میں ترمیم کی جائے گی۔ اس پر کورٹ نے ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے والےاس طرح کاقانون بنانےاور عدالتی نظام کو متاثر کرنے کو لے کرایک بار پھر حکومت کی سرزنش کی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے۔ عدالت نے کہا کہ بہار حکومت قانون سازی کےاثرات کا مطالعہ کیے بغیرقانون لے آئی اور پٹنہ ہائی کورٹ کے 16 جج ضمانت کی عرضیوں کو نمٹانے میں مصروف ہیں۔
اس سخت قانون کے تحت درج مقدمات میں ملزمین کی ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے ریاستی حکومت کی جانب سے اس کے اثرات پر کیا کچھ مطالعہ کیا گیا ہے ، اس کے بارے میں عدالت کے سامنے ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
بنچ نے کہا، بہار حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل رنجیت کمار نے دلیل دی ہے کہ قانون کو مزید مؤثر بنانے اور اس کے ناخوشگوار نتائج سے نمٹنے کے لیے ایک ترمیم کی جائے گی۔ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ کیااس قانون کو لاگو کرنے سے پہلے قانون سازی کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔
شراب بندی قانون 2016 میں نافذ کیا گیا تھا، جس کے تحت پوری ریاست میں شراب کی فروخت اور استعمال پر پابندی ہے۔ اس قانون میں سنگین جرائم کے لیے قید کی سزا کے علاوہ ملزم کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی اہتمام ہے۔ اس قانون میں 2018 میں ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت کچھ شقوں کو ہلکا کیا گیا تھا۔
سماعت کے آغاز میں بنچ نے کہا کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ پٹنہ ہائی کورٹ کے 16 جج ضمانت کے معاملات کی سماعت کر رہے ہیں۔
بنچ نے کہا، یہ قانون بھیڑ کو بڑھا رہا ہے۔ اسے ٹھیک کریں ورنہ ہم کہیں گے کہ ترمیم ہونے تک سب کو ضمانت پر رہا کردیں۔آپ نے قانون سازی کے اثرات کے مطالعہ کیے بغیر قانون سازی کی۔ آپ نے اس بات کا مطالعہ نہیں کیا کہ قانون سے پیدا ہونے والے مقدمات سے نمٹنے کے لیے کس بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہوگی۔ ہر قانون سازی قانونی چارہ جوئی بھی پیداکرتی ہے۔
بنچ نے کہا کہ ریاستی حکومت نے قانون کو غیر ضمانتی بنا دیا ہے جس سے مسئلہ بڑھ رہا ہے کیونکہ یہ معاملہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچ رہا ہے۔
بنچ نے کہا، چیزوں کو درست کرنے کا بوجھ آپ (بہار حکومت) پر ہے۔
عدالت نے کہا کہ شراب کا مسئلہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور ہر ریاست کو اس سے نمٹنے کے لیے قانون بنانے کا حق ہے، لیکن اس کے بارے میں کچھ مطالعہ ہونا چاہیے تھاکہ یہ کتنی تعداد میں مقدمے کوبڑھائے گا، کس طرح کے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہوگی اور کتنے ججوں کی ضرورت ہوگی؟
جسٹس سندریش نے کہا کہ اس قانون کے تحت گرفتار کیے گئے زیادہ تر لوگ سماج کے نچلے طبقے سے ہیں۔ بنچ نے کہا کہ جب بھی ریاست ایسا قانون لاتی ہے تو اسے ہر پہلو پر غور کرنا چاہیے۔
بنچ اب اس معاملے کی سماعت مئی کے پہلے ہفتے میں کرے گی۔
بتا دیں کہ گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے ریاست کے شراب بندی قانون کے بارے میں دور اندیشی کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی وجہ سے ہائی کورٹ میں بڑی تعداد میں ضمانت کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ ضمانت کی سادہ درخواست کو نمٹانے میں ایک سال کا وقت لگ رہا ہے۔
بہار میں شراب پر پابندی کے بعد سے اکتوبر 2021 تک 3.5 لاکھ مقدمات درج کیے گئے ہیں اور 401855 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
ان مقدمات سے متعلق تقریباً 20000 ضمانت کی درخواستیں پٹنہ ہائی کورٹ اور دیگر ضلعی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
گزشتہ جنوری میں شراب بندی قانون کو لے کر بہار حکومت کی تنقید کے بعد ریاستی حکومت نے قانون میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)