اس سے پہلے، پانچ ججوں کی بنچ نے آدھار قانون کے جواز کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ اعتراض درج کیاتھا۔اس کے ساتھ ہی کہا تھا کہ نجی کمپنیوں کو صارفین کی اجازت سے بھی ان کی جانکاری کی تصدیق کے لیے آدھار ڈیٹا کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
نئی دہلی : سپریم کورٹ نےآدھارقانون میں ترمیمات کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضی کے مدنظرجمعہ کومرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔چیف جسٹس آف انڈیاایس اےبوبڈے اور جسٹس بی آر گوئی کی بنچ نے آدھارترمیم قانون، 2019 کے جواز کو چیلنج دینے والی ایس جی وومبٹکیرے کی عرضی پرشنوائی کے دوران مرکز کو اس معاملے میں جواب داخل کرنے کا حکم دیاہے۔ کورٹ نے اس پی آئی ایل کو اس معاملے میں پہلےسے زیر التوا عرضیوں کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔
عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ آدھار قانون میں2019 کی ترمیم سپریم کورٹ کے پہلے دیے گئے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے پہلے، پانچ ججوں کی بنچ نے آدھار قانون کے جواز کو برقرار رکھتے ہوئے کچھ اعتراض درج کیاتھا۔اس کے ساتھ ہی کہا تھا کہ نجی کمپنیوں کو صارفین کی اجازت سے بھی ان کی جانکاری کی تصدیق کے لیے آدھار ڈیٹا کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حالانکہ، بعد میں مرکزنے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے بینک کھاتا کھولنے اور موبائل فون کنیکشن حاصل کرنے کے لیےصارفین کو آئی ڈی کے طورپراپنی مرضی سےآدھار کااستعمال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے قانون میں ترمیم کیا تھا۔
راجیہ سبھا نے جولائی مہینے میں صوتی ووٹ سے آدھار اور دوسرے قانون (ترمیم)ایکٹ، 2019 کو پاس کیا تھا۔ اپوزیشن کے ذریعے ڈیٹا چوری ہونے کے خدشات سمیت کئی وجہوں کا ذکر کرتے ہوئے ایکٹ کی مخالفت کی گئی تھی، جبکہ لوک سبھا نے اس ایکٹ کو چار جولائی کو پاس کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ کانگریس سمیت اپوزیشن پارٹیوں نے آدھار کارڈ سے جڑی جانکاریوں کے تحفظ کو لےکر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اس کے ڈیٹا تحفظ کے لئے پارلیامنٹ میں ایک بل لانے کی مانگ کی تھی اور دھیان دلایا تھاکہ سپریم کورٹ نے بھی اس بارےمیں مشورہ دیا ہے۔اس ترمیم شدہ ایکٹ میں آدھار ڈیٹا کے اہتماموں کی نجی کمپنیوں کے ذریعے خلاف ورزی کرنے پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ اور جیل کی سزا کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آدھار کارڈ / نمبر کو بینک کھاتے سے لنک / جوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والے صارفین کو اپنے فون سے آدھار نمبر کو لنک کرانے کے لئے نہیں کہہ سکتے ہیں۔ بنچ نے کہا تھاکہ انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے اور پین کارڈ بنوانے کے لئے آدھار ضروری ہے۔
اس وقت جسٹس چندرچوڑ نے کہاتھا کہ آدھار غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منی بل کی بنیاد پر آدھار قانون کو پاس کرنا غیر آئینی ہے۔ ایک ایسے بل کو منی بل کے طور پر منظور کرنا جو کہ منی بل کی صورت میں نہیں ہے، یہ آئین کے ساتھ دھوکہ دھڑی ہے۔ جسٹس چندرچوڑ نے کہا تھاکہ مکمل طور سے آدھار پروگرام پرائیویسی کی پوری طرح خلاف ورزی کرتا ہے۔
(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)