گراؤنڈ رپورٹ : بی جے پی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ فصل بیچنے کے 14 دن کے اندر گنا کسانوں کی ادائیگی یقینی بنائی جائےگی اور حکومت بننے کے 120 دنوں کے اندر گنا کسانوں کے بقایے کی ادائیگی کر دی جائےگی، لیکن اتر پردیش میں پارٹی کی حکومت بننے کے بعد بھی یہ وعدے کاغذوں سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
18اپریل کے بٹیا کے گونا کے دن دھئی لے باٹیں، ہر سال ایک سے ڈیڑھ ایکڑ بوت رہلین، ابکی تین ایکڑ گنا بو دہلین۔ سوچلین کہ بیٹی کے گونوا کے خرچا فصلیا بیچکے نپٹائی دیب۔ فصل بڑھیا بھئیل تب سوچلین بھگوانوں دکھیا کے درد سمجھت باٹیں، کیہو سے قرضا ناہیں لےوےکے پڑی۔ جنوری بیت گئیل، گنا ابہین کھیتوے میں کھڑا با۔ 2014سے15 کے ابہین 22 ہزار روپیہ ملوا سے ناہیں ملل۔ گھر میں بیٹی اور کھیتوا میں فصلیا دیکھکے رتیا کے نیند ناہیں آوت با… ‘
58 سالہ رام برکچھ یادو اپنی بات پوری کرتے اس کے پہلے ہی الاؤ کی روشنی میں ان کی آنکھوں کے آنسو چمکنے لگتے ہیں۔ میری نظر کو بھانپ وہ اپنا چہرہ گھٹنوں کے درمیان کر کےجلدی سے انہوں نے آنکھیں پوچھ لیں۔اس بیچ شیوپوجن چودھری تپاک سے بول پڑے،2014سے15 میں20000 اور 2017سے18 میں25000 روپیہ کے دو پرچی کے ہمکے پیسہ آج لے ناہیں ملل۔ ہم ٹریکٹر چلائلا، ای سیزن میں مہینن سے کام ناہیں ملل، گھرے بیٹھل باٹیں۔ مارچ میں بیٹیا کی شادی پڑل با، 1.75 ایکڑ کھیت میں گنا کے فصل اب سوکھے لاگل، کھیت گروی رکھلے کے علاوہ کونو چارا ناہیں لوکت با۔ ‘
شیوپوجن کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ کئی لوگ ایک ساتھ بول پڑے، کے توہر کھیت گروی رکھی، جب سبکر ایہے حال با… ؟ ‘اس سوال نے شیوپوجن کو لاجواب کر دیا۔تبھی ایک بزرگ بول پڑے، بابو پیسوا بھلے نہ ملے لیکن کھیتوا سے گنوا کے فصلیا ہٹ جات، تب ہم نے، دوسرے فصل کے تیاری کرتین۔ ‘سبھی اس سے متفق دکھے اور بول پڑے، ہاں، پیسہ 4سے5 سال بعد ملی تو کا، کھیتوا خالی ہو جا۔
گورکھپور سے صحافیوں کے آنے کی اطلاع جیسے لوگوں کو ملتی ہے، لوگ اپنا نام اور فصل کی تفصیل درج کروانے چلے آتے، اس امید میں کہ ذمہ داران تک ان کی تکلیف پہنچے۔ اگلے دن صبح ہمارے گاؤں چھوڑنے تک سلسلہ جاری رہا۔ مشرقی اتر پردیش کا ضلع مہراج گنج، نچلول تحصیل کے کشن پور سمیت سینکڑوں گاؤں کے کسانوں نے گنا کی فصل سے ممکنہ آمدنی کی امید میں کئی اسکیمیں تیار کر لی تھیں۔ کسی نے بیٹی کی شادی طے کر دی تو کسی نے کرایے پر کھیت اور قرض لےکر گنا بو دیا۔
اب جبکہ مہراج گنج ضلع کے گڑورا واقع جے ایچ وی شوگر لمیٹڈ یا گڑورا چینی ملکے چلنے کی امید ختم ہو رہی ہے، ان کی آنکھوں کی نیند غائب ہو گئی ہے۔کسانوں کے مطابق صرف کشن پور میں ہی 750 ایکڑ رقبہ میں سے 500 ایکڑ گنا کی فصل ہے۔ گڑورا، شکرہر، میری، شیتلاپور، دھمورا، مٹھرا، انڈہیا، رنگہیا، لکشمی پور، کڑجا، چھیتونا، شرکلیا، پراگپور، ہرگانوا، کرمہیان سمیت 99 گاؤں کے گنا کی فصل سیدھے مل پہنچتی ہے۔ 33 جگہوں پر ہرسال مل کی طرف سے سینٹر لگایا جاتا ہے، ہرایک سینٹر 10 گاؤں کے درمیان لگایا جاتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، جے ایچ وی مل سے 48000 کاستکار جڑے ہیں، زیادہ تر اوسط اور چھوٹے کسان ہیں۔ کسانوں کا مل پر 2014سے15 کا 22.92 کروڑ اور 2017سے18 23 کروڑ سمیت کل 45.92 کروڑ روپے بقایا ہے۔پھر بھی کسانوں کی ترجیح میں کھیت میں کھڑے گنا کو مل تک پہنچانا ہے، بقائے پیسوں میں لئے اور سالوں انتظار کرنے کو تیار ہیں۔ فصل کٹنے میں ہوئی دیری کی وجہ سے گنا کے معیار میں 30 فیصد گراوٹ آ چکی ہے۔دلالوں کا فعال گروہ 150 روپے کوئنٹل تک گنا خرید کر منافع کما رہا ہے، جبکہ گنا کی کم از کم امدادی قیمت 310 سے 325 روپیے فی کوئنٹل ہے۔
مہراج گنج ضلع میں کسانوں کے مہینوں سے مشتعل ہونے کی اطلاع پر میں کشن پور گاؤں پہنچا تو قریب دو درجن لوگوں نے گھیر لیا۔ میں نے جاننا چاہا کہ مہینوں سے چل رہی کسانوں کی تحریک کیوں ختم ہو گئی، کیا حکومت اور مل انتظامیہ نے مانگ مان لی تھیں؟
بھیڑ میں شامل جوان کسان بیجومدیشیا نے بتایا،اتوار 20 جنوری کو نچلول تحصیل پر بی جے پی رکن پارلیامان پنکج چودھری، سسوا بازار کے ایم ایل اے پریمساگر پٹیل، گنا کمشنر، ڈی ایم، ایس ڈی ایم، ایس ایس پی سمیت تمام افسروں نے میٹنگ کی تھی۔ شام سے شروع ہوئی میٹنگ رات 10 بجے تک بھی نہیں ختم ہوئی تو بڑھتی ٹھنڈ سے بچنے کے لئے ہم گھر لوٹ آئے۔ ‘میٹنگ کے اگلے دن کسانوں کو پتہ چلا کہ اس سال 22 جنوری کو مل میں آگ پڑ جائےگی اور مل چالو ہو جائےگی، ایسا ہوا نہیں۔
نومبردسمبر 2017 میں گنا کی فصل لگانے کے لئے گڑورا چینی مل نے کسانوں کو بیج دیا۔ ایک ایکڑ زراعت پر ایک بورا یوریا، ایک ٹرالی فاسفیٹ دیا تھا۔ بیج کا پیسہ فصل کی ادائیگی کے وقت مل انتظامیہ کاٹ لیتا باقی سب کچھ فری تھا۔اکتوبر 2018 سے مل میں رپیئرنگ کا کام بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ ساری تیاریاں پوری ہو گئیں تو دو دسمبر، 2018 کو ضلع گنا افسر کی موجودگی میں مشینوں کی پیرائی سے پہلے روایتی پوجا کی گئی۔
گزشتہ سال 7 دسمبر سے مل میں باقاعدہ پیرائی شروع ہونی تھی، نہیں ہونے پر مظاہرہ کی اسکیم بنائی اور 17 دسمبر کو پہلا مظاہرہ کیا۔ ہزاروں کسان اور مل مزدوروں نے مل کے گیٹ پر اکٹھا ہوکر حکومت اورمل انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے۔ملکے جنرل مینیجر رنبیر سنگھ نے انتظامیہ سے مذاکرہ کی بنیاد پر 28 دسمبر سے مل چلانے اور 60 فیصد موجودہ اور 40 فیصد پچھلی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی۔
کوئی ہلچل نہیں دیکھ 29 دسمبر کو کسانوں نے گڑورا چینی مل سے نچلول تحصیل تک پیدل مارچ کیا۔ قریب پانچ ہزار کسانوں نے مارچ کے دوران مقامی ایم ایل اے، رکن پارلیامان، مل انتظامیہ، وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم کے خلاف بھی کسانوں نے نعرے لگائے۔اے ڈی ایم نے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔ سابق فوجی اور کسان منوج کمار رانا نے مانگ پوری نہیں ہونے پر بھوک ہڑتال کرنےکی وارننگ دی۔ معینہ مدت گزربے کے بعد 8 جنوری سے رانا اپنے دو حامیوں سمیت بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔
نویں دن گزشتہ سال 17 دسمبر کو اے ڈی ایم نے جوس پلاکر ان کی بھوک ہڑتال کو ختم کروایا اور یقین دہانی کرائی کہ 22 جنوری کو ٹرائل کرکے 26 جنوری سے پیرائی شروع کروا دی جائےگی، یہ وعدہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا۔17 دسمبر کو کسانوں کے پہلے منظم مظاہرہ کے بعد الگ الگ گاؤں میں درجن بار آزادانہ طورپر کسانوں کے گروہوں نے مظاہرہ کرکے گنا اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے پتلے کو بھی جلایا۔
لاکھوں لوگوں کے متاثر ہونے کے بعد بھی کسانوں کے پاس کسی پارٹی، تنظیم کی قیادت نہیں تھی۔ مظاہرہ اور میٹنگ میں سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور بی جے پی سبھی کے رہنما آتے اور سیاسی بیان بازی کرکے چلے جاتے۔ نتیجہ، ایک مہینے سے زیادہ تک چلی تحریک میں کسانوں کے ہاتھ اب بھی خالی ہیں۔27 سالہ رام وجے یادو حیدر آباد میں بڑھئی کا کام کرتے ہیں، یہ سوچکر گھر آئے تھے کہ گنا مل میں پہنچانے کے بعد واپس لوٹ جائیںگے۔
وہ کہتے ہیں، کشن پور کے ہی آس پاس کے سینکڑوں گاؤں کے جوان باہر رہکر روزگار کرتے ہیں اور زراعت کے وقت گھر آ جاتے ہیں، میری طرح ان سبھی کو دوہرا نقصان ہو رہا ہے۔ فصل کھیت میں کھڑی ہے اور وہاں مزدوری کا نقصان ہو رہا ہے۔مقامی میڈیا کے متعلق بھی کسانوں میں ناراضگی دکھی، ہزاروں کسانوں، مزدوروں کے مظاہرہ کو بھی مناسب جگہ نہیں دی گئی۔ جو خبریں اخباروں میں جگہ پا سکیں ان میں بھی مل انتظامیہ اور حکومت کے دعوے نمایاں طور پر چھپتے تھے۔
یوں تو کسی بھی پارٹی نے کسانوں کے مفاد کی لڑائی نہیں لڑی، کسانوں کی سب سے زیادہ ناراضگی بی جے پی سے ہے۔ وجہ صرف یہ نہیں کہ مقامی ایم ایل اے، رکن پارلیامان سمیت ریاست اور مرکز میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔کسانوں کے مطابق صدر تحصیل کے چوک چھاؤنی میں گورکھ ناتھ مٹھ کے ملکیت کی 200 ایکڑ اور نیپال کے گوپال پور میں 50 ایکڑ گنا کی فصل تھی جس کو سسوا چینی مل میں پہنچایا جا چکا ہے۔
2017 کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا، گنا کسانوں کو فصل بیچنے کے 14 دنوں کے اندر پوری ادائیگی متعین کرنے کا انتظام حکومت کے ذریعے نافذ کیا جائےگا اور حکومت بننے کے 120 دنوں کے اندر بینکوں اور چینی مل کی ہم آہنگی سے گنا کسانوں کی بقایا رقم کی مکمّل ادائیگی کرائی جائےگی ‘۔حکومت بنیں دو سال پورے ہونے کو ہیں۔ حکومت کے وعدے ابھی بھی کاغذوں سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
گڑورا چینی مل 1998سے99 سے باقاعدہ ہرایک سیشن میں پیرائی کرتی ہے۔ مل کے لئے 200 کسانوں کی زمینوں کا حصول کیا گیا تھا۔ 40000 روپے فی ایکڑ کی در سے کسانوں کو ادائیگی کرنے کے علاوہ ان کو مل میں مستقل نوکری کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔جن کسانوں سے زمینوں کاحصول کیا گیا تھا ان میں سے صرف ایک چوتھائی کو نوکری دی گئی۔ مل بند ہونے سے اب ان پر بھی بحران کے بادل چھانے لگے ہیں۔ مل میں 45 مستقل اور 565 عارضی مزدور کام کرتے ہیں۔ مظاہرہ کی شروعات مزدوروں نے کی تھی بعد میں کسان بھی شامل ہو گئے۔
پوروانچل چینی مل مزدور یونین گورکھپور،برانچ گڑورا چینی ملکے چیئرمین نول کشور مشرا بتاتے ہیں، مل مزدوروں کو ادائیگی نہیں ملنے کی وجہ سے مزدوروں کا 17.80 کروڑ روپے انتظامیہ پر بقایا ہے۔ ‘وہ بتاتے ہیں،مل انتظامیہ نے ہمیشہ مزدور قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ مزدوروں کو پینے کے پانی، بیت الخلا، حفاظتی اوزار اور ضروری بھتہ نہیں دئے جاتے تھے۔ اوور ٹائم کی بھی سنگل ریٹ سے ادائیگی کی جاتی تھی۔ اتناہی نہیں مینیجر کی من مانی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے 11 مزدوروں کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ ‘
کسانوں کی کوئی تنظیم نہیں ہونے کی وجہ سے تحریک کی قیادت پوروانچل چینی مل مزدور یونین نے ہی کی تھی۔کسانوں کی حالت پر نول کشور کہتے ہیں، گڑورا چینی مل کو انتظامیہ نے 59.25 لاکھ کوئنٹل گنا مختص کیا تھا۔ جس کو رد کرکے آس پاس کی چھے چینی مل کو مختص کر دیا گیا ہے۔ جن ملوں کو مختص کیا گیا ہے، ان پر پہلے سے ہی صلاحیت سے دوگنا زیادہ ذمہ داری ہے۔ دوسرے ایریا کا گنا وہ پیر نہیں پائیںگی، کسانوں کے پاس کھیت میں گنا پھونکنے کے علاوہ کوئی اور چارا نہیں۔ ‘
اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت گڑورا چینی مل کے حصول کی تیاری کر رہی ہے۔ مل کو نیلام کرنے کی کاغذی کارروائی کو آخری شکل دیا جا رہا ہے جلدہی تاریخ کا اعلان کرکے نیلامی کی کارروائی کی جائےگی۔کسان جب مل چلانے کی مانگ کو لےکر سڑک پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ اسی وقت 21 دسمبر 2018 کو گنا ڈیولپمنٹ کے وزیر سریش رانا، مہراج گنج سے رکن پارلیامان پنکج چودھری، سسوا بازار، پھریندا، پنیرا کے ایم ایل اے اور گنا کمیٹیوں کے سکریٹری اور ضلع گنا افسروں کے ساتھ میٹنگ لے رہے تھے۔
اس میں طے کیا گیا کہ ایک مہینے کے اندر اس چینی مل میں ری سیورکی تقرری کر دی جائےگی۔ ضرورت پڑنے پر ضبطی اور حصول کرنے پر بھی اتفاق بن گیا تھا۔ اسی اجلاس میں مل کو مختص 59.25 لاکھ کوئنٹل گنا کو ردکرکے اس کو 6 کارخانہ کو مختص کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف افسروں کے ذریعے کسانوں کو گمراہ کرکے مل چلانے کی یقین دہانی کرائی جا رہی تھی۔
کسانوں نے 45.92 کروڑ روپے کی ادائیگی نہیں کرنے اور حکومت کو گمراہ کرنے کے الزام میں مل مالک اور سابق ایس پی رکن پارلیامان جواہر جیسوال کے خلاف گنا سکریٹری پریم چند کی تحریر پر پولیس دفعہ 408، 409، 417، 418، 420، 427، 465، 468 اور 120بی کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ساتھ میں یوپی گنا فراہمی خرید ایکٹ اور 3/7 ای سی اے جیسی سنگین دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔
سسوا بازار سے ایم ایل اے پریمساگر پٹیل نے بتایا،مل پر کسانوں کا 46 کروڑ روپے کا بقایا تھا، حکومت نے انتظامیہ سے کہا تھا کہ بقایا کی ادائیگی کراؤ اور مل چلاؤ۔ 7مل کو گنا مختص کر دئے گئے ہیں، سینٹر لگ گئے ہیں اور گنا اٹھ رہا ہے کسانوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ دنوں میں کسانوں کو ادائیگی کی جائےگی۔ حکومت ملکے حصول کی کارروائی کر رہی ہے، مل کو بیچکر کسانوں کے بقائے کی ادائیگی کی جائےگی۔ ‘
ایم ایل اے پریم ساگر پٹیل کا یہ دعویٰ مشکوک ہے کیونکہ جن چھے کارخانوں کو جے ایچ وی چینی مل کا گنا مختص کیا گیا ہے، ان کو صلاحیت سے دوگنا مختص ہو چکا ہے۔کین یونین سسوا بازار کے صدر راجیشور تیواری کے مطابق، آئی پی ایل چینی مل سسوا بازار کی پیرائی صلاحیت سیشن میں زیادہ سے زیادہ 33.90 لاکھ کوئنٹل ہے، مل کو 70.22 لاکھ، آئی پی ایل چینی مل گڈھا بازار کی صلاحیت 27.89 لاکھ کوئنٹل کے متناسب 63.35 لاکھ کوئنٹل، 66.69 لاکھ کوئنٹل کی صلاحیت والی دی کنوڑیا کپتان گنج، کشی نگر مل کو 106.69 لاکھ کوئنٹل، برلا شوگر مل ڈھاڑھا کو 105.60 کے متناسب 216.18 لاکھ کوئنٹل اور 58.17 لاکھ کوئنٹل کی صلاحیت والی تروینی انجینئرنگ رامکولا، کشی نگر مل کو 205.65 لاکھ کوئنٹل گنا مختص کیا گیا ہے۔ ‘
مذکورہ چینی مل کو ہی گڑورا چینی مل کا 59.25 لاکھ کوئنٹل گنا مختص کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے گھوسی مل نے گنا لینے سے منع کر دیا ہے۔ دیگرملوں نے حکومت کے دباؤ میں گنا لینا تو قبولکر لیا لیکن گڑورا چینی ملکے علاقے میں کوئی سینٹر نہیں لگایا ہے، جبکہ گڑورا مل کا گنا پیرنے کے لئے 54000 کوئنٹل گنا روزانہ چینی مل کو اٹھانا پڑےگا۔ 27 جنوری سے مل میں ایک سینٹر بنا دیا گیا ہے، جو 300 کوئنٹل گنا روزانہ لے رہا ہے۔
مل کے لئے پہلے سے مختص گنا پیرنا مشکل ہے تو گڑورا چینی ملکے حصے کی پیرائی کیسے کرےگی؟ دوسرا، اگر حکومت گنا مل کا حصول کرنا چاہتی تھی، پیرائی سیشن میں کرنے کی بجائے اب کیوں کیا جا رہا ہے؟راجیشور تیواری کہتے ہیں،مل کو بند کرنے کی چاہے جو وجہ ہوں 46 کروڑ روپے بقائے کی دلیل ہضم نہیں ہو رہی، علاقے کا زیادہ سے زیادہ مل پر تقریباً اتناہی بقایا ہے۔ پھر بھی یوگی حکومت اگر مل کا حصول کرنا چاہتی تو کرایے، پر مل چلایا جائے۔ مل بند ہوا تو کسان اور مزدور بحران میں آ جائیںگے۔ ‘
گڑورا چینی ملکے اہم منتظم راکیش شرما حکومت کی کارروائی پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں،48000 کاشتکار، 600 مزدور اور بالواسطہ طور پر 50000 لوگوں کا ذریعہ معاش مل سے جڑا ہوا ہے۔ پچھلی اور موجودہ ادائیگی میں ہم کریںگے۔ مل چلانے کو ہم پوری طرح سے تیار ہیں حکومت سے اجازت ملتے ہی آٹھویں دن مل چالو ہو جائےگی۔ مل اگر چالو نہیں ہوئی تو لاکھوں لوگوں پر منفی اثر پڑےگا۔ ‘
فصل خراب ہونے پر تو کسان برباد ہوتے ہی ہیں۔ اچھی فصل کسانوں کو فائدہ ہی پہنچائےگی، دعویٰ کرنا غلط ہوگا۔ گنا کی فصل کا مل پر بقایا سال در سال چلتا رہتا ہے ادائیگی نہیں ہوتی۔گنّا کسانوں کا مل پر کروڑوں روپے بقایا ہے اور اچھی فصل ہونے کے بعد بھی کسانوں کا بدحالی کے دلدل میں دھنسے رہنا صرف مہراج گنج تک ہی محدود نہیں، پوری ریاست کا یہی حال ہے۔
اتر پردیش میں2017سے18 میں گنا کی فصل 22.99 لاکھ ہیکٹر تھی 2018 میں یہ بڑھکر 27.94 لاکھ ہیکٹر ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں پودا 19.57 فیصد، پیڈی 23.93 سمیت گنّا کی فصل میں 21.53 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ فصل کی مقدار بڑھنے سے چینی کی پیداوار تو بڑھےگی پر اس کا فائدہ کسانوں اور چینی صارفین کو ملے، امکان کم ہے۔
اتر پردیش چینی صنعت اور گنا ترقی محکمہ کی طرف سے 1 فروری تک جاری اعداد و شمار کے مطابق، گنا کسانوں کا کارخانہ پر بقایا 11007.98 کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس میں موجودہ پیرائی سیشن 2018سے19 کا 6621.42 کروڑ، 2017سے18 کا 3939.62 اور 2016سے17 کا 446.94 کروڑ روپے شامل ہے۔
موجودہ پیرائی سیشن کا 1 فروری 2019 تک حکومت کے ذریعے طےشدہ قیمت کے تحت گنا کسانوں کامل پر 128873.51 کروڑ روپے بقایا ہے لیکن ابھی تک محض 6266.09کروڑ روپے کی ہی ادائیگی ہو سکی ہے۔6621.42 کروڑروپے کی ادائیگی ہوگی یا پرانے بقایوں کے ساتھ وہ سال در سال بڑھتا چلا جائےگا، یہ تو وقت بتائےگا۔ یہ واضح طور پردکھ رہا ہے کہ بہتر فصل کافائدہ کسانوں سے زیادہ ثالثوں کو ہونے والا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)