الیکشن کےقصے:دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آزاد امیدواروں کا مقصد کسی بھی طرح انتخاب جیتنا نہیں ہے۔ باجوریا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ راشٹرپتی کے انتخاب سے لے کر مقامی سطح کے انتخابات تک میں 278 بارمقدر آزما چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میں کاغذات نامکمل ہونے کی بنا پر وہ میدان سے باہر ہو گئے۔ انتخاب لڑنے کے ان کے شوق کا یہ عالم ہے کہ شورش زدہ کشمیر تک سے وہ خم ٹھوک چکے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ضمانت ضبط کرانے کا نایاب تمغہ بھی انہیں کے پاس ہے۔
انتخابات میں پائے جانے والے ‘آزاد’امیدوار ہماری رنگارنگ جمہوریت کا ایک دلچسپ باب ہیں، مگر یہ لوگ میڈیا کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں نریندر مودی کے خلاف 78 لوگوں نے پرچہ داخل کیا تھا۔ ان میں ناگرمل باجوریا جیسے لوگ بھی تھے، جو اس وقت 87 سال کے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ تکنیکی وجوہات سے ان کا پرچہ رد ہو گیا۔ وارانسی میں ویسے تو مقابلہ مودی، اروند کیجریوال یا اجے رائے کے بیچ تھا، پھر بھی نام واپس لینے اور پرچہ رد ہونے کے بعد کوئی 42 امیدوار میدان میں تھے۔
تقسیم ہند کے بعد لاہور سے ہجرت کر کے آنے والے ناگرمل باجوریا، بھاگلپور میں آباد تاجر اور سماجی کارکن تھے۔ ان کا انتخابی پرچہ ضرور رد ہو گیا مگر انہیں اس کا اطمینان تھا کہ کوشش تو کی۔ مودی اور کیجریوال کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے نعرہ دیا تھا، ‘ایک بہاری سب پہ بھاری۔’ اس سے پہلے انتخابی پرچہ داخل کرتے وقت وہ اپنے ساتھ گدھے لے گئے تھے۔ ایک اخبار کو اس کی وجہ انہوں نے بتائی کہ یہ گدھے ان نیتاؤں کی نمائندگی کر رہے ہیں، جو لوگوں سے ‘جھوٹے وعدے کر کے انہیں بیوقوف بنا رہے ہیں۔’
وارانسی کے 42 امیدواروں میں سے ایک پربھات کمار بھی تھے، جنہوں نے خود کو 3 کروڑ 35 لاکھ روپے کا آسامی بتایا تھا۔ مندروں کے شہر سے انتخاب لڑنے والوں کے ذریعے بتائی گئی یہ سب سے زیادہ رقم تھی۔ حقیقتاً تو ان 42 امیدواروں نے 25 کروڑ سے زیادہ کی اپنی جائیداد ظاہر کی تھی۔
نہ صرف انفرادی امیدوار بلکہ کئی چھوٹی و غیر معروف پارٹیاں بھی میدان میں تھیں۔ 2014 میں وارانسی سے ہی مانوادھیکار جن شکتی پارٹی، اگرجن پارٹی، جن شکتی ایکتا پارٹی، مولک ادھیکار پارٹی، راشٹریہ انصاف پارٹی، گاندھی ایکتا پارٹی، انڈین نیشنل لیگ، راشٹریہ آمبیڈکر دل، بہوجن مکتی پارٹی، بھارتیہ شکتی چیتنا پارٹی اور شوشت سماج دل نے انتخاب لڑا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان آزاد امیدواروں کا مقصد کسی بھی طرح انتخاب جیتنا نہیں ہے۔ باجوریا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ راشٹرپتی کے انتخاب سے لے کر مقامی سطح کے انتخابات تک میں 278 بارمقدر آزما چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر میں کاغذات نامکمل ہونے کی بنا پر وہ میدان سے باہر ہو گئے۔ انتخاب لڑنے کے ان کے شوق کا یہ عالم ہے کہ شورش زدہ کشمیر تک سے وہ خم ٹھوک چکے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ضمانت ضبط کرانے کا نایاب تمغہ بھی انہیں کے پاس ہے۔
ہری لال، کاکا جوگندر سنگھ، ناگرمل باجوریا اور موہن لال دھرتی پکڑ جیسے انتخاب لڑنے والوں پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ جمہوریت کی اصل روح کو برقرار رکھنے کے دعوےدار تھے۔ 31 دسمبر 2002 کو موہن لال دھرتی پکڑ چل بسے۔ حالانکہ ان کی موت کا کوئی خاص چرچہ نہیں ہوا، لیکن باجوریا کی طرح ہی ہر انتخاب ہارنے والے دھرتی پکڑ بھی مقامی انتخاب سے لے کر راشٹرپتی انتخاب تک میدان سنبھالتے رہے۔ وہ فخریہ طور پر اس کا ذکر کرتے تھے کہ اندرا گاندھی، چرن سنگھ، راجیو گاندھی، پی وی نرسمہا راو اور اٹل بہاری واجپائی کے خلاف وزیر اعظم کا تو نیلم سنجیو ریڈی اور ذیل سنگھ کے خلاف راشٹرپتی کا انتخاب لڑ چکے ہیں۔
اصل میں دھرتی پکڑ عوامی زندگی میں جمہوریت، جمہوری اقدار اور احتساب کو لے کر پوری طرح سنجیدہ تھے۔ قانون کی اعلیٰ ڈگری ایل ایل ایم اول درجے میں حاصل کرنے والے دھرتی پکڑ کا ماننا تھا کہ جمہوریت میں آپسی رضامندی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جمہوریت میں “عوام الناس کی رائے ضروری ہے۔ وہ (جمہوریت) چاہتی ہے کہ عوام کے سامنے متبادل موجود رہے۔ ورنہ انتخاب کرائے جانے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔” وہ شہرت کے بھوکے نہیں ہیں، اس کہ وضاحت کرتے ہوئے درج بالا باتیں انہوں نے ایک انٹرویو میں کہی تھیں۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ ان اقدامات کے ذریعے لوگوں کو جمہوریت کے تئیں بیدار رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، “جمہوری طرز پر ہر ایک سطح کا انتخاب لڑنا دراصل ہر ایک کو یہ باور کرانے کے لیے ہے کہ جمہوریت کا مطلب ایک سے لے کر تمام کو یعنی ہم سب کو اس کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم سب اس کا حصہ ہیں۔”
انتخاب کے وقت دھرتی پکڑ لکڑی کا ایک تاج سر پر سجا لیتے تھے۔ خود ہی اپنے آپ کو ہار ڈال لیتے اور ایک گھنٹی بجاتے رہتے۔ ان کے نزدیکی رہے جے شنکر کے مطابق وہ کہتے “یہ گھنٹی، لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے ہے۔”
بارہا وہ لکھنو اور گوالیار میں منعقد ہونے والے اٹل بہاری واجپائی کے جلسوں میں واجپائی کی پسند کا لباس دھوتی کرتا پہن کر حاضر رہتے۔ واجپائی ان کی موجودگی کا ذکر بھی کرتے۔ چونکہ دونوں کا تعلق گوالیار سے تھا، اس لیے وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ دھرتی پکڑ کے خاندان کی ہمدردی ہندو مہاسبھا کے ساتھ تھی۔ وہ اپنے انتخاب پر زیادہ خرچ نہیں کرتے تھے، بلکہ انتخابی تشہیر کے سامان جیسے ہینڈ بلس، پمفلٹس کے بدلے وہ علامتی رقم 25 پیسے لیتے تھے۔ اس کا مقصد ایک جمہوری عمل میں سب کی حصے داری طے کرنا تھا۔
ہریانہ کے کسان چودھری ہری رام ایک اور ‘دھرتی پکڑ’ تھے، جنہوں نے راشٹرپتی انتخاب لڑے اور ہارے۔ وہ کسی سیاسی پارٹی یا تحریک سے وابستہ نہیں تھے مگر ان کے صاحبزادے کرشن مورتی ہڈا، بھجن لال سرکار میں وزیر رہے۔ ہری لال نے 1952، 1957، 1962، 1967 اور 1969 میں منعقدہ صدر جمہوریہ کے انتخاب میں حصہ لیا۔ اس میں کبھی کبھی ان کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔
1974 سے پہلے تک ہر کوئی راشٹرپتی کا انتخاب لڑ سکتا تھا، بس اس کا بالغ ووٹر ہونا شرط تھا۔ 1974 میں الیکشن کمیشن کی سفارشات پر مرکزی سرکار نے پریزیڈینشیل اینڈ وائس پریزیڈینشیل ایکٹ 1952 میں ترمیم کر دی۔ اس کے اہم نکات تھے؛
الف۔ راشٹرپتی کے لیے انتخاب لڑنے والے امیدوار کا فارم ووٹ دینے کے مجاز کم سے کم 10 تجویز کنندہ اور ایسے ہی 10 تائید کنندہ لوگوں کی رضامندی کے بعد ہی جاری کیا جائے گا۔ (بعد میں اس میں مزید ترمیم یہ کی گئی کہ راشٹرپتی انتخاب کے لیے اب 50 سے 40 ممبران پارلیامنٹس یا ایم ایل ایز بطور تجویز و تائید کنندہ ہونا ضروری ہیں۔)
ب۔ اس انتخاب کے لیے 1974 میں زر ضمانت 2500 روپے تھے۔ اسے اب 15 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
ج۔ اس ضمن میں انتخابی شکایت صرف سپریم کورٹ میں کی جا سکے گی۔ یہ شکایت انتخاب لڑنے والا امیدوار یا ووٹ دینے کے مجاز کم سے کم 20 لوگ مشترکہ عرضی گذار کے طور پر مل کر کر سکتے ہیں۔
باجوریا کا یقین تھا کہ بدعنوانی نے ملک میں جمہوری نظام کا خانہ خراب کر رکھا ہے۔ انہوں نے سنہ 1969 میں وی وی گری کے خلاف راشٹرپتی کا پہلا انتخاب لڑا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ و نائب صدر جمہوریہ کے لیے ہونے والا ہر انتخاب انہوں نے لڑا۔ یہی نہیں انہوں نے اندرا گاندھی و راجیو گاندھی کے خلاف بھی ان کے حلقوں رائے بریلی و امیٹھی جا کر انتخاب لڑے۔ زیادہ تر انتخاب میں ان کی ضمانت ضبط ہوئی لیکن ایسی ہار بھی ان کا حوصلہ کم نہ کر سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح وہ معاشرے کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس طرح انتخاب لڑنے کے ساتھ وہ غریب لڑکیوں کی شادیاں بھی پورے خلوص سے کرایا کرتے تھے۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )