آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مدارس کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ نے الزام لگایا کہ آر ایس ایس سے متاثر بی جے پی کی مرکزی حکومت اور کچھ ریاستوں کی حکومتیں اقلیتوں بالخصوص مسلم کمیونٹی کے تئیں منفی رویہ اپنا رہی ہیں۔
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے مدرسوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ نے الزام لگایا کہ ریاستوں کی بی جے پی حکومتیں مدرسوں کے پیچھے پڑی ہیں۔
بورڈ نے پوچھا کہ مٹھ، گروکل اور دھرم شالاؤں جیسے دوسرے مذہبی اداروں پر بھی یہی اصول کیوں لاگو نہیں ہوتے۔
اے آئی ایم پی ایل بی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متاثر پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت اور کچھ ریاستوں کی حکومتیں اقلیتوں بالخصوص مسلم کمیونٹی کے تئیں منفی رویہ اپنا رہی ہیں۔
मदरसों के सम्बंध में केंद्र और राज्य सरकारों का पक्षपातपूर्ण रवैय्या चिंताजनक और असंवैधानिक है (महासचिव बोर्ड) pic.twitter.com/NNZVDzCG9i
— Khalid Saifullah Rahmani (@hmksrahmani) September 2, 2022
انہوں نے کہا، جب کسی خاص نظریے سے متاثر پارٹی اقتدار میں آتی ہے، تو اس سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کا نقطہ نظر منصفانہ اور آئین کے دائرے میں ہو گا۔
رحمانی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود پارلیامنٹ اور دیگر جگہوں پر لاء اینڈ آرڈر کی اہمیت کو نشان زد کیاہے، لیکن بی جے پی مقتدرہ مختلف ریاستی حکومتوں کا رویہ اس کے برعکس ہے۔
جمعرات (1 ستمبر) کو جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے الزام لگایا،آسام اور اتر پردیش کی بی جے پی حکومتیں (اصولوں کی) بہت معمولی خلاف ورزیوں پر مدرسوں کے پیچھے پڑی ہیں۔ مدارس کو بند کر کے، انہیں منہدم کرکے حتیٰ کہ مدرسوں اور مساجد میں کام کرنے والے لوگوں کو بلا وجہ دہشت گرد بتاکر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ملک سے باہر سے آنے والے ممتاز لوگوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
رحمانی نے سوال کیا،اگر کسی بھی خلاف ورزی کے لیے بلڈوزر ہی واحد آپشن ہے، تو وہ گروکلوں، مٹھوں اور دھرم شالاؤں کے لیے وہی طریقہ اختیار کیوں نہیں کرتے جیسا کہ وہ مدارس اور مساجد کے معاملے میں کرتے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنی مرضی سے کام کر رہی ہے اور آئین میں لکھی گئی باتوں پر عمل نہیں کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس طرح کے متعصبانہ رویے کی مذمت کرتا ہے اور حکومتوں سے آئین میں درج باتوں پر عمل کرنے اور صبر وتحمل سے اس کی پیروی کرنے کی اپیل کرتا ہے۔
غور طلب ہے کہ ا آسام میں دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مبینہ تعلقات کے الزام میں تین مدارس کواسی مہینے منہدم کر دیا گیا۔ 31 اگست کو، بونگائیگاؤں ضلع میں حکام نے ایک مدرسہ کو منہدم کر دیا، جس کے احاطے میں مبینہ طور پر جہادی سرگرمیاں چل رہی تھیں۔
اس سے قبل 29 اگست کو بارپیٹا ضلع میں ایک مدرسہ اور 4 اگست کو موری گاؤں ضلع میں ایک مدرسہ کو انتظامیہ نے منہدم کر دیا تھا۔
اگست کے اوائل میں چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام جہادی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا ہے کیونکہ گزشتہ چار مہینوں میں بنگلہ دیش میں القاعدہ سے منسلک دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ پانچ جہادی ماڈیول کا پردہ فاش کیا گیاہے۔
گزشتہ 22 اگست کو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ریاست سے باہر کے اماموں اور مدرسوں کے اساتذہ کے لیے جلد ہی پولیس تصدیق اور آن لائن رجسٹریشن لازمی ہو جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی، اتر پردیش حکومت نے ریاست کے تمام غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریاست کے وزیر مملکت برائے اقلیتی بہبود دانش آزاد انصاری نے کہا تھا کہ سروے میں مدرسہ کا نام، اسے چلانے والے ادارے کا نام، مدرسہ کسی پرائیویٹ عمارت میں چل رہا ہے یا کرائے کی عمارت میں اس کی جانکاری، اس میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد، پینے کے پانی، فرنیچر، بجلی کی فراہمی اور بیت الخلاء کے انتظامات، اساتذہ کی تعداد، مدرسہ میں نافذ نصاب، مدرسہ کی آمدنی کا ذریعہ اور کسی غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مدرسہ کے الحاق سے متعلق معلومات جمع کی جائیں گی۔
اس سے قبل مئی 2022 میں اتر پردیش کے تمام مدارس میں قومی ترانہ ‘جن گن من’ گانے کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے رجسٹرار ایس این پانڈے نے اس سلسلے میں تمام ضلع اقلیتی بہبود افسران کو حکم جاری کیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)