ڈھائی ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے اور چپے چپے پر سکیورٹی اہلکار کا دعویٰ کرنے والی انتظامیہ بھگدڑ کو روکنے میں کیوں ناکام رہی؟ انتظامیہ کو جھونسی کے علاقے میں ہوئی بھگدڑ کی جانکاری کیوں نہیں تھی؟ اگر جانکاری تھی تو بکھرے کپڑے، چپلوں اور دیگر چیزوں کو بڑے ٹرکوں میں کس کے حکم پر ہٹوایا جا رہا تھا۔
مہا کمبھ (تصویر: X/@myogioffice)
نئی دہلی: اب یہ واضح ہے کہ مہا کمبھ میں بھگدڑ کے بعد اتر پردیش حکومت نے مرنے والوں کی جو تعداد جاری کی ہے وہ گمراہ کن ہے۔ بھگدڑ کے تقریباً پندرہ گھنٹے بعد ریاستی حکومت نے بتایا تھا کہ 28 جنوری کو دیررات سنگم نوز کے علاقے میں ہوئی بھگدڑ میں 30 افراد ہلاک اور 60 زخمی ہوئے تھے۔
جبکہ اب میڈیا کی مختلف رپورٹس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بھگدڑ ایک جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات پر ہوئی تھی۔ سنگم نوز کے علاوہ جھونسی میں بھی اسی رات بھگدڑہوئی تھی، جس کے بارے میں میلے کے ڈی آئی جی ویبھو کرشنا نے
کہا کہ،’پولیس کے پاس ایسی کوئی جانکاری نہیں ہے۔’
ظاہر ہے کہ جب پولیس کے پاس اس بات کی کوئی اطلاع نہیں تھی کہ جھونسی کے علاقے میں بھگدڑ ہوئی ہے، تو وہاں ہوئی موت کی تعداد بھی حکومت نےنہیں بتائی۔ جھونسی کے علاقے کے عینی شاہدین نے
میڈیا کو بتایا کہ وہاں 24 لوگوں کی جان گئی ۔ اس طرح مرنے والوں کی تعداد 54 تک پہنچ جاتی ہے۔
سوالوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ بہت سے سوال ابھی بھی جواب طلب ہیں۔ ڈھائی ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے اور چپے چپے پرسکیورٹی اہلکار کا دعویٰ کرنے والی انتظامیہ بھگدڑ کو روکنے میں کیسے ناکام ہو گئی؟ انتظامیہ کو جھونسی کے علاقے میں ہوئی بھگدڑ کی جانکاری کیوں نہیں تھی؟ اگر بھگدڑ کی جانکاری نہیں تھی تو پھر کس کے حکم پر بھگدڑ کے مقام پر بکھرے ہوئے کپڑے، چپل اور دیگر چیزیں بڑے ٹرکوں سے ہٹوائی جا رہی تھیں۔
عینی شاہدین کیا کہتے ہیں؟
بہار کے رہنے والے نتیش جو الہ آباد میں پڑھتے ہیں، اس رات اپنے دوستوں کے ساتھ نہانے گئے تھے۔ ‘جب ہم نہانے کے بعد پہنچے تو واقعہ ہو چکا تھا۔ جائے وقوعہ پر کپڑے اور چیتھڑے پھیلےہوئے تھے۔ وہاں کئی لاشیں پڑی تھیں۔ انتظامیہ پہنچ چکی تھی۔ صفائی کارکن اپنے کام میں مصروف تھے۔’
سرکاری اعداد و شمار پر سوال اٹھاتے ہوئے نتیش کہتے ہیں،’حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ صرف 30 لوگ نہیں مرے۔ 50 سے زائد افراد کی موقع پر ہی موت ہو چکی تھی۔ بعد میں مختلف ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر کتنے لوگ مرے اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔’
الہ آباد کے ایک آزاد صحافی مکیش جائے حادثہ کے قریب موجود تھے۔ وہ تفصیلات بتاتے ہیں،’اس رات امرت اسنان کے لیے اکھاڑے نکل چکے تھے۔ انتظامیہ اس کے لیے جگہ بنا رہی تھی۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گنگا کے اوپر ایک پل پر تھا ۔ پتہ چلا کہ سنگم نوز پول نمبر 165 کے قریب بھگدڑ مچ گئی ہے۔ اکھاڑے کو روک دیا گیا۔ سادھوؤں کو واپس بھیج دیا گیا۔ ہم جائے حادثہ کی طرف بڑھے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ لوگوں کو مسلسل ایمبولینس میں لے جایا جا رہا ہے۔ ایمبولینس سادھوؤں کے لیے خالی کرائی گئی سڑکوں سے نکل رہی تھیں۔ سب کو کمبھ کے لیے بنائے گئے مرکزی اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ وہاں سے لوگوں کو سوروپ رانی ہسپتال یا میڈیکل کالج بھیجا جا رہا تھا۔ …واقعے کے دو گھنٹے کے اندر جائے وقوعہ کو صاف کر دیا گیا۔ دو گھنٹے بعد آنے والے نئے لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہاں کیا ہوا ہے۔’
‘حکومت کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ لوگ مرے ہیں۔ جب ہم سینٹرل ہسپتال پہنچے تو وہاں صرف زخمیوں کو رکھا گیا تھا۔ جن کی حالت بہت خراب تھی یا جان چلی گئی تھی، انہیں وہاں سے بھیجا جا رہا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد اب بھی اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہی ہے۔’
این ایس یو آئی (نیشنل اسٹوڈنٹ یونین آف انڈیا) سے وابستہ اسٹوڈنٹ لیڈر اجئے پانڈے کہتے ہیں، ‘میں صبح 10 بجے سوروپ رانی اسپتال پہنچا۔ مریض وہاں پہنچ رہے تھے۔ کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں آرہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں 50-60 لاشیں پڑی تھیں۔’
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں میڈیکل کالج میں کرناٹک کی دو خواتین ملیں۔ ایک خاتون کانچن تونگڑے کے شوہر کی بھگدڑ میں موت ہو گئی اور دوسری سروجا کے خاندان کے چار افراد ہلاک ہو گئے۔
واقعہ کے دو دن بعد بھی کمبھ علاقے میں موجود صحافی لکھ رہے ہیں کہ واقعہ کے بعد سے اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرنے والے لوگوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔
موجودہ صورتحال
پریاگ راج سے دی وائر کے لیے ‘کمبھ ڈائری’ نامی سیریز لکھ رہے اندر شیکھر سنگھ کہتے ہیں، ‘اب بھیڑ کم ہو گئی ہے۔ لوگوں کو باہر نکالا جا رہا ہے۔ نئے لوگ کم تعداد میں پہنچ پا رہے ہیں۔ جو پیپا پل پہلے بند تھے انہیں آپریشنل کر دیا گیا ہے اور اس سے ایک آن میں بھیڑ کم ہوگئی ہے۔ آمدورفت خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا حکومت تصویروں میں میلے کو عظیم الشان دکھانے کے لیے بھیڑ کو ایک جگہ پر جمع کر رہی تھی؟’
سنگھ کا کہنا ہے کہ بھگدڑ کے چھوٹے موٹے واقعات آئے روز ہو رہے ہیں، جن کی رپورٹنگ نہیں کی جا رہی ہے۔