سرینگر: گھاٹی میں رہنے والے کشمیری پنڈت غیرمعینہ بھوک ہڑتال پر کیوں ہیں

سال 1990کے بعد گھاٹی سے بڑی تعداد میں کشمیری پنڈت ہجرت کر گئے تھے، لیکن کچھ خاندان یہیں رہ گئے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ایسے آٹھ سو سے زیادہ کشمیری پنڈت خاندانوں میں کسی ایک فردکو نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، جو اب تک پورا نہیں ہوا۔

سال 1990کے بعد گھاٹی سے بڑی تعداد میں کشمیری پنڈت ہجرت کر گئے تھے، لیکن کچھ خاندان  یہیں رہ گئے۔ مرکزی حکومت  کی طرف سے ایسے آٹھ سو سے زیادہ  کشمیری پنڈت خاندانوں  میں کسی ایک فردکو نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، جو اب تک پورا نہیں ہوا۔

سرینگر میں کشمیری پنڈتوں کامظاہرہ(فوٹو: شاکر میر)

سرینگر میں کشمیری پنڈتوں کامظاہرہ(فوٹو: شاکر میر)

وسندھرا ٹلو (26)سرینگر کےحبہ کدل علاقے میں اپنے نانا کے گھر رہتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی گلیوں اور تنگ گھروں والا یہ محلہ جھیلم ندی کے کنارے آبادہے۔ وسندھرا کے نانا گنپت یار مندر میں پجاری تھے۔وہ بہت چھوٹی تھیں، جب ان کے والدین الگ ہو گئے تھے۔ دی وائر سے بات چیت میں وہ کہتی ہیں،‘میری ماں کام کرنے والی خاتون نہیں ہیں اور جب سے نانا نانی  گزرے ہیں، میں ہی گھر سنبھال رہی ہوں۔’

وسندھرا ان درجن بھر کشمیری پنڈتوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے سوموار سے 300 سال پرانے ایک مندر احاطہ  میں ہڑتال شروع کیا ہے۔نوےکی دہائی  میں عسکریت پسندی کی شروعات کے دوران قتل اور دھمکیوں کے بیچ ااندازےکےمطابق76000 کشمیری  پنڈت کشمیر چھوڑکر چلے گئے تھے۔ حالانکہ کچھ پریوار ایسے بھی تھے، جنہوں نے یہیں رہنے کافیصلہ کیا تھا۔

گھاٹی میں رہنے والے کشمیری ہندوؤں کے لیے کام کرنےوالی کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی(کے پی ایس ایس)کےمطابق، عسکریت پسندی کے دوران ہلاکتوں اورقتل عام  میں850 کشمیری پنڈتوں کی موت ہو گئی۔آج کشمیری پنڈتوں کے باقی بچے ہوئے 808خاندان  ابھی بھی گھاٹی میں242مقامات پر رہ رہے ہیں اور کشمیر کی آبادی کا ایک چھوٹا حصہ ہیں، لیکن ان خاندانوں  کے پاس روزگار کے مواقع کی کمی ہیں۔

جن لوگوں کے پاس مواقع ہیں، وہ بہتر روزگار کے امکانات کے لیے اپنی فیملی کے ساتھ گھاٹی چھوڑ رہے ہیں جبکہ باقی مایوسی  کے غارمیں جی رہے ہیں۔وسندھرا اپنے پڑوس میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر زندگی بسر کر رہی ہیں لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے بچوں کے نہ آنے سے ان کی آمدنی متاثر ہوئی ہے۔ اب وہ اپنی تھوڑی بہت بچت سے ہی کام چلا رہی ہیں۔

مرکزی حکومت نے کشمیر میں رہ رہے 808 کشمیری پنڈت خاندانوں کو ایک نوکری دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن انتظامیہ  کو باربار یاد دلائے جانے کے بعد بھی روزگار نہیں ملا۔ اس وجہ سے وسندھرا جیسےنوجوان کشمیری پنڈت خفا ہیں اور انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔

وہ کہتی ہیں،‘میں نے کشمیر یونیورسٹی سے الکٹرانکس میں اپنی ماسٹرس ڈگری پوری کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سرکار سے فنڈ مانگ رہے ہیں۔ ہم یہاں تمام پڑھے لکھے لوگ ہیں۔’

وسندھرا کی ہی طرح کل گام ضلع کے تینگبل گاؤں کے ایک کشمیری ہندو بھوپندر سنگھ(34)لاک ڈاؤن کے پہلے سے پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ‘ایک سال سے زیادہ  سے اسکول بند ہیں اور میری آمدنی سے میری ضروریات  پوری نہیں ہو رہی ہیں۔’

بھوپندر نے انگریزی میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ وہ جنوبی کشمیر کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتے ہیں اور گھر میں پانچ ممبر ہیں، جس میں واحد کمانے والے شخص وہی ہیں۔ فیملی  میں ان کے بیماروالدین ، بیوی  اور آٹھ مہینے کا بچہ ہے۔ان کے دوست راجیشور سنگھ (36)کو بھی اسی طرح کی دقتوں کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے پبلک ایڈمنسٹریشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے اور کلگام کے ایک پرائیویٹ  اسکول میں پڑھاتے ہیں۔

لیکن اب ان کی آمدنی  سے گزارا نہ ہونے کی وجہ سے دونوں دوست کبھی چاول کی کھیتی کرتے ہیں، تو کبھی سیب کے باغات  میں دہاڑی مزدوروں کے طور پر پھل اکٹھا کرکےانہیں ڈبوں میں بھرنے کا کام کرتے ہیں۔راجیشور نے بتایا،‘اس کام سے ایک دن میں500 روپے مل جاتے ہیں لیکن پکنگ سیزن صرف اور 30 دنوں کا ہے۔ اس کے بعد ہماری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔’

سال 2007 میں کےپی ایس ایس کے ایک وفدنے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کرکے ایک بار روزگار اور مالیاتی  پیکیج  کے توسیع  کا مطالبہ  کیا تھا، آخرکار جن کااعلان  سال 2009 میں ہوا تھا۔

کے پی ایس ایس کے سربراہ  سنجے ٹکو کہتے ہیں،‘لیکن گھاٹی میں رہ رہے پنڈتوں کا اس میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ ہم ہجرت کرنے والوں سے الگ زمرے میں ہیں۔ ہم لاک ڈاؤن اور کرفیو کے بیچ جدوجہد والی حالت میں رہتے ہیں۔ ہمیں پناہ گزیں  پنڈتوں کی جگہ نہیں رکھا جا سکتا۔’

کے پی ایس ایس نے اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے137ویں پارلیامنٹری کمیٹی  کی رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 1990کی دہائی سے ہی ان کے معاشی حالات  خراب ہو گئے تھے اور کشمیر کی دیگر  کمیونٹی سے الگ ان کے لیےاضافی مثبت  اقدام کیے جانے چاہیے۔

سال2013 میں ٹکو اس معاملے کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ لےکر گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘مرکزی وزارت داخلہ نے عدالت کے سامنےایک خط پیش کیا، جس میں پیکیج میں گھاٹی میں رہنے والے ہندوؤں کو شامل کرنےکی یقین دہانی کرائی گئی  تھی۔’

ٹکو نے دی وائر کو بتایا کہ وہ بالخصوص جموں وکشمیر کے محکمہ ڈایزاسٹرمینجمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے ناراض ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘محکمہ اس سال 23 جون کو مرکزی وزارت داخلہ  کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کونافذ کرنے میں ناکام رہا ہے، جس میں کہا گیا کہ گھاٹی میں رہنے والے ہرپنڈت فیملی کو ایک روزگار کے فارمولے کے تحت روزگار کے اہل  ہیں۔ ہم نے انتظامیہ کو کئی بار اس سے واقف کرایا لیکن اس معاملے میں کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔’

ٹکو کے مطابق، ‘ڈی ایم آرآراینڈآر نے جموں اینڈ کشمیر شکایت سیل کے ذریعے ہمارے ریمائنڈر کا جواب دیا، جس میں کہا گیا کہ تمام عہدے ایس آراو412 اور ایس آراو425 کےتناظرمیں ایڈورٹائزکیے جا ئیں گے لیکن کئی بار یاد دلائے جانے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔’

ویسے مسئلہ بس اتنا نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے روزگار پیکیج میں گھاٹی میں رہنے والے کشمیر پنڈتوں کے زمرے کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جموں وکشمیر سرکار نے 2017 میں 2009 کے ایس آراو425 کے ضابطوں  میں ترمیم کیا، جس کی کشمیری سکھوں نے مبینہ طو رپرامتیاز کاالزام  لگاکرمخالفت کی۔

دی وائر نے جموںو کشمیر کے ایل جی کے صلاح کار بشیرخان کو فون کرکے اس کے بارے میں جاننا چاہا۔ انہوں نے کہا،‘یہ معاملہ میری جانکاری میں نہیں ہے۔’

اس مدعے پر زور دیا گیا کہ مرکزی  وزارت داخلہ نے کشمیر میں رہ رہے کشمیری ہندو خاندانوں کےلیے500 روزگار کا وعدہ کیا تھا لیکن مقامی انتظامیہ  کےتذبذب  میں ہونے کی وجہ سے کئی نوجوان  پنڈت، جو روزگار کے اہل  تھے، اب وہ عمر کی حد کو پار کر رہے ہیں۔

اس طرح کے 70نوجوان کشمیری پنڈتوں کی عمر طے حدوں  کو پار کر چکی ہے اور اب وہ  روزگار کے اہل  نہیں ہیں۔

تیس  سال کے ایک سول انجینئرنگ گریجو ایٹ سندیپ کول کا کہنا ہے، ‘جتنا وہ ہمیں انتظار کراتے ہیں، اتنا ہم اس دوڑ سے باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا،‘جدوجہد اور لاک ڈاؤن کی وجہ سےپرائیوٹ سیکٹر کا کشمیر میں فروغ  نہیں ہو پایا لیکن اگر انتظامیہ  اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کرتی تو میرے پاس اپنی فیملی کے ساتھ مستقل طور پر گھاٹی چھوڑکر روزگار کی تلاش میں ملک میں کہیں اور جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔’

ٹکو کی قیادت والے کےپی ایس ایس نے سرکاری عہدوں  کے مبینہ غلط استعمال کے لیے ڈی ایم آرآراینڈآر کے حکام کی جانچ کی مانگ کی۔ ساتھ ہی ان کی مانگ  مرکزی وزارت داخلہ کی سفارشات  کی تعمیل، 808 ہندو خاندانوں کوماہانہ مالی امداد دینے، رہنے کی جگہ اورمائگرنٹ ویلفیئرفنڈکے تحت توسیعات کی بھی ہے۔

نوجوان کشمیری پنڈت دی وائر سے کہتے ہیں کہ یہ المیہ ہی ہے کہ مرکز کی ایک ہندو نیشنلسٹ  پارٹی کی جانب سے مقررانتظامیہ  کے تحت کشمیری ہندو اپنی گھٹتی آبادی، بےروزگاری، غریبی اور بھوک مری جیسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

وسندھرا کہتی ہیں،‘ہمارے لیےیہ صرف راحت پانے کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہمارے زندہ  رہنے کا مسئلہ ہے۔ اگر جس روزگار کا ہمیں وعدہ کیا گیا ہے، وہ ہمیں نہیں دیا گیا تو ہمارے پاس بھوکوں مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچےگا۔ تو اس طرح مرنے کے بجائے میں نے بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔’

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)