سرکاری جانچ ایجنسیوں کےچھاپے اورگرفتاریوں کے خوف کی وجہ سے اکثر لوگ خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیں گے۔
سونو سود، ہرش مندر اور شری نواس بی وی۔
ہرش مندر ایک سماجی کارکن ہیں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کے لیے کام کرتے ہیں۔لیکن سرکار انہیں پریشانی کا سبب اور ممکنہ طور پر اپنے کام میں رکاوٹ پیدا کرنےوالے ایک خطرناک شخص کے طور پر دیکھتی ہے، جو پریشان کرنے والےسوال پوچھتا ہے۔اس لیے سرکار کو لگتا ہے کہ انہیں اگر راستے سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے تو ہراساں ضرور کیا جانا چاہیے۔
جیسا کہ حالیہ دنوں میں باربار ہوا ہے،ان کے کیمپس پر پروینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت انفوسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)نے
چھاپہ مارا۔ ان پر الزام ہے کہ سماجی کاموں کی آڑ میں وہ ڈونیشن اور گرانٹ حاصل کرتے ہیں،بالخصوص غیرملکی ڈونرز سے۔یہ اور بات ہے کہ ان الزامات کی تصدیق کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اکیلے ہیں ہر طرح کے لوگ، ایکٹر سونو سود، جنہوں نے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران کسی بھی طرح اپنے گھر واپس لوٹنے کی کوشش کر رہے مزدوروں کی مدد کرنے کے لیے دن رات کام کیا، سے لےکر یوتھ کانگریس کے شری نواس بی وی تک، جنہوں نے سانسوں کی جنگ لڑ رہے کووڈ مریضوں کے لیے آکسیجن اور دوائیوں کا انتظام کیا تھا ؛ہر کوئی جانچ کے دائرے میں آیا ہے۔ ان پر یا تو محکمہ انکم ٹیکس کا چھاپہ مارا گیا ہے یا پولیس نے ان سے پوچھ تاچھ کی ہے۔
سودکے خلاف تین دنوں تک چھاپے چلتے رہے۔الزام لگائے گئے ہیں کہ انہوں نے 20 کروڑ کی ٹیکس چوری کی ہے اور غیرملکی ذرائع سے پیسے لےکر کئی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ حال ہی میں سود دہلی سرکار کی ایک اسکیم سے جڑے تھے جس کے تحت پیشہ ور افراد کو اسکول کے طلبا کا سرپرست بننا ہے۔ بی جے پی نے کہا ہے کہ چھاپوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
سرکاری اداروں یا دوسروں کی جانب سے لگائے گئے ایسےالزامات کے ساتھ ایک بات یہ ہے کہ انہیں میڈیا میں خوب جگہ دی جاتی ہے جس کی وجہ سےکسی پر خوب کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور کسی کی امیج کو داغدار بنا دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی مناسب عمل کا انتظار نہیں کرتا، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ الزام شک سے بالاتر ثابت ہو جائے۔
ظاہر ہے جن پر چھاپہ مارا گیا ہے ان میں سے کئی پر بدنامی کا داغ ہمیشہ کے لیے لگا دیا جائےگا۔
سود اور ان کے جیسےدوسرے کئی بنیادی طور پر سرکار یا بی جے پی کے نکتہ چیں نہیں ہیں، لیکن ان کے کام انتطامی پالیسیوں کی خامیوں اور ناکامیوں کو براہ راست یا بالواسطہ طور پراجاگر کر دیتے ہیں جیسے کہ کووڈ 19بحران کے دوران سرکار کی شدید ناکامی، جب اس نے مہاجر مزدوروں اور مریضوں کو ان کے حال پر بےسہارا چھوڑ دیا، بغیر کسی ہمدردی اوریقین دہانی کے۔ ایسے میں شہریوں کو آگے آنا پڑا اور سرکار کو یہ بات بےحد ناگوار گزری۔
تنقید کرنے والوں کو بھی بخشانہیں جا رہا ہے،ایک انتہا ئی تاریک منظرنامے میں جہاں اکثرمیڈیا اپنے آقا کی آواز سننے والا بھاڑے کا بھونپو بن گیا ہے، اختلاف کرنے کی جرأت کرنے والے بعض نام الگ سے نمایاں ہیں۔ ان پر سرکار کی شکاری نظر پڑنے میں وقت نہیں لگتا۔
نیوزلانڈری اور نیوزکلک جیسے آن لائن نیوز پورٹل کے دفاتر کا انکم ٹیکس کے افسران نے حال ہی میں ‘سروے’کیااور ان کے ملازمین سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ یہ دونوں پورٹل سرکار اور بی جے پی کے خلاف مسلسل لکھتے آرہے ہیں۔
جولائی میں کئی صوبوں کے انتہائی بااثر اورمؤقر ہندی اخبار دینک بھاسکر کے تقریباً 30 دفاتر پر مبینہ ٹیکس چوری کے الزامات کو لےکر چھاپے مارے گئے۔ بھاسکر بنا کسی شرط کے نریندر مودی کا حمایتی رہا ہے، لیکن مئی میں اس نے اتر پردیش میں گنگا کے ساحل پر بڑی تعداد میں پائی گئی لاشوں کی( جو ممکنہ کووڈ مہلوکین کی لاشیں تھیں)جانچ کی تھی۔
یہ ایک ایسی صحافت تھی، جیسی صحافت ہونی چاہیے، لیکن جیسا کہ لازمی تھا، اس نے یوگی آدتیہ ناتھ سرکار کو اور اس طرح سے مرکزی حکومت کو بھی مشتعل کردیا کیونکہ ان تصاویر اور تحقیقات نے یوگی حکومت کی مجرمانہ بے حسی کو بے نقاب کیا اورانتظامیہ کےدعووں کی پول کھول دی۔
آدتیہ ناتھ خاص طور پر ہر طرح کے ‘ملک مخالفین’کے خلاف انتقامی جذبے سےکالم لیتے رہے ہیں۔ چاہے وہ کوئی کامیڈین ہو، یا ڈاکٹر۔ صحافی تو خاص طور پر ان کے نشانے پر رہے ہیں۔ ہاتھرس میں ہوئے گینگ ریپ،قتل اور آدھی رات کو آناً فاناً میں پو لیس کے جبراًآخری رسومات کیےجانےپراسٹوری کے لیے آ رہے صحافی صدیق کپن کو بھلگڑھی گاؤں میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تب تک انہوں نے کوئی اسٹوری لکھی بھی نہیں تھی۔
کپن مسلمان تھے، لیکن جن سب پر چھاپے مارے گئے ہیں، وہ مسلمان نہیں تھے۔ اصل میں جب اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کی بات آتی ہے تو بی جے پی حکومت مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتی۔
تاناشاہی سرکاریں، پھر چاہے وہ جمہوری طریقے سے منتخب ہی کیوں نہ ہوں، کسی بھی طرح کے اختلاف رائےکو برداشت نہیں کرتی ہیں، کیونکہ یہ شعوری طور پر تیار کردہ نیریٹو کے غبارے کو پھوڑ دیتا ہے اور یہ سرکار تو خاص طور پر اس معاملے میں چھوئی موئی کی طرح ہی ہے۔
سرکارکا اپنی کئی حصولیابیوں کا باربار ذکر کرنا، بھلے ہی زمینی صورتحال اس کے بالکل برعکس کیوں نہ ہوں، اور وفادار میڈیاکے24 گھنٹے اس کو دہرانے کا نتیجہ یہ ہے کہ نریندر مودی کے شدت پسند پیروکار اور بھکتوں کو ہی نہیں، سرکار کو بھی ان حصولیابیوں کا یقین ہو گیا ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی بھی نظریہ ان دعووں کی سچائی کو بے نقاب کر دیتا ہے اور انہیں تباہ کر دیتا ہے۔
اور اس کی بالکل بھی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس لیے ایسےمخالف نظریہ رکھنے والے لوگوں کو ڈرانے اور اگر ممکن ہو تو ان کا منھ بند کرانے کے لیے ان کے پیچھے سرکاری ایجنسیوں کو چھوڑ دینے جیسا جابرانہ قدم اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن یہ شاید ہی کبھی کارگر ہوتا ہے۔
نہ ہی مندر اور نہ ہی نشانہ بنائے گئے میڈیا ادارے چپ ہونے والوں میں سے ہیں۔ وہ نہ صرف بولنا جاری رکھیں گے، بلکہ اپنا کام اور بھی زیادہ حوصلےکے ساتھ کرتے رہیں گے۔
یقینی طور پر ڈرانے اوردھمکانے کی ایسی کوششیں بولنے کی خواہش رکھنے والے کچھ لوگوں پر، جن میں صحافی بھی شامل ہیں اثر ڈال سکتی ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی بھی کر سکتی ہیں۔ سرکاری جانچ ایجنسیوں کے چھاپہ مارے جانے اور یہاں تک کہ گرفتار ہونے کا ڈر زیادہ تر لوگوں کو خوفزدہ کر سکتا ہے، جو ان حالات میں چپ رہنے کو ہی دانشمندی سمجھیں۔
کاروباری، سیلیبریٹیزاور دوسر بااثر لوگوں نے پہلے ہی یہ سمجھ لیا ہے۔ دوسرے بھی ان کے راستے کی پیروی کر سکتے ہیں۔ اور یہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے برا ہوگا۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)