ادب کا نوبل انعام پانے والی ہان کانگ کون ہیں؟

’ہان‘ جنوبی کوریائی زبان کا نمائندہ لفظ ہے۔ یہ ان تمام احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، جنہیں کوریا اپنی پہچان کی علامت گردانتا ہے۔

’ہان‘ جنوبی کوریائی زبان کا نمائندہ لفظ ہے۔ یہ ان تمام احساسات کی ترجمانی کرتا ہے، جنہیں کوریا اپنی پہچان کی علامت گردانتا ہے۔

جنوبی کوریائی ادیبہ ہان کانگ اور انگریزی میں ترجمہ کی گئی ان کی بعض تصنیفات کا سرورق۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس اور امیزون)

جنوبی کوریائی ادیبہ ہان کانگ اور انگریزی میں ترجمہ کی گئی ان کی بعض تصنیفات کا سرورق۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس اور امیزون)

گلوبلائزیشن  کے عہد میں یورپی زبانوں سے قطع نظر دیگر زبانوں کے تراجم میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایشیائی ادب پہلے نہیں پڑھاجاتا تھایا اس کا  ترجمہ نہیں کیا جاتا تھا، لیکن پچھلی دہائیوں میں ایشیا اور اس کے ادب میں مغرب کی دلچسپی بڑھ گئی  ہے۔ ایشیا کوسمجھنے اور اس کے ساتھ مکالمہ قائم  کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی  ہے۔ اسی وجہ سے چینی، جنوبی کوریائی، عربی، ترکی جیسی غیر یورپی زبانوں سےتراجم اس دور میں زیادہ ہوئے  ہیں اور انہیں خاطر خواہ پذیرائی بھی حاصل ہے۔ ترجمے کے لیے بین الاقوامی اعزازات دیے جانے لگے ہیں اور غیریورپی زبانوں کا ادب منظرنامے پر نمایاں ہونے لگا  ہے، خصوصی طور پر ان  زبانوں کا ادب ،جنہیں  پہلے زیادہ  توجہ حاصل نہیں  تھی۔

جنوبی کوریائی ادیبہ  ہان کانگ،جنہیں اس سال ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا ہے، ان کی تصنیفات اور تخلیقات کو اس ترجمہکلچر کے آئینے سے بھی دیکھا جا  سکتا ہے۔ بہرحال، ہان یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی کوریائی ادیبہ  ہیں۔

ہان نے لکھنے کی ابتدا ’دی اسکارلیٹ اینکر‘ (کورین ٹائٹل ’فول گُن داچھ‘) ناول سے کی تھی جوسیول سن من رسالے   میں 1993 میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کا ناول ’ریڈ اینکر‘ 1994 میں منظر عام پر آیا۔ لیکن جس ادبی کارنامے نے ہان کو دنیا کے سامنےمتعارف کروایا،وہ تقریباً بیس سال بعد لکھا گیاان کا ناول ’دی ویجیٹیرین‘ہے۔ ہان کو ان کے اس ناول کے لیے 2016 کا مین بکر انٹرنیشنل پرائز ملا تھا۔ مین بکر انٹرنیشنل پرائز کسی  ناول کو اس کے اصل متن اور ترجمہ دونوں کے لیے دیا جاتا ہے۔ کورین سے اس کا انگریزی میں ترجمہ ڈیبورا سمتھ نے کیا ہے۔

اس ایوارڈ کے بعد جہاں ایک طرف ترجمے کو سراہا گیا،وہیں دوسری طرف مغربی میڈیا میں اس کے بارے میں منفی خبریں اور تبصرے بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملے۔ مثلاً، ’ہفنگٹن پوسٹ‘ نے اسے ’اپنے موضوع سے پرے‘ کہہ دیا۔ ’دی گارڈین‘نے اس ترجمے کو’(مس) ٹرانسلیشن‘ کہہ کر اس کی تنقید کی تھی۔

لیکن ان تمام تنازعات کے درمیان ہان کانگ اپنے ناول کے انگریزی ترجمے اور مترجم ڈیبورا سمتھ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی  رہیں۔بہرحال،’دی ویجیٹیرین‘ کے حوالے سے بین الاقوامی ادبی دنیا میں ہنگامہ برپا ہوا اور یہ ایک ایسا واقعہ بن گیا، جس نے ترجمہ کے لیے نئی امید پیدا کی۔ آج نوبل انعام کے اعلان کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ پلاٹ اور ترجمے کے حوالے سے یہ تمام منفی تبصرے ممکنہ طور پر کھوکھلےتھےیا متعصب تھے۔

اپنی ابتدائی تحریروں میں ہان نے انسانی بیگانگی، اجنبیت، صدمے اور وجودیت کو موضوع بنایا۔ لیکن اس کے بعد ان کی تخلیقات میں انسانی نفسیات، تشدد، سماجی دباؤ، روایتی افکارو نظام  کی وجہ سے انسانی ذہن پر پڑنے والےبے پناہ بوجھ جیسےموضوعات نظر آنے لگتے ہیں۔ ہان عام طور پر خواتین کے اردگرداپنی کہانی بُنتی ہیں اور ان کے مرکزی کردار روایتی اقدار اور ڈھانچے کو بڑی خوش اسلوبی  اور سادگی  سے چیلنج کرتے  نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ’دی ویجیٹیرین‘ کی مرکزی کردار’ینگ-ہی‘، انتہائی پرسکون اور سادہ انداز میں نان ویجیٹیرین کھانے کو ترک کرکےویجیٹیرین کھانے کو اپناتی ہے اور کوریائی معاشرت کے تانے بانے کو چیلنج کرتی  ہیں۔

ہان کی مشہور کہانی’دی فروٹ آف مائی وومن‘ کی کردار بھی انسانی تہذیب کو ایک بار پھر سے ویجیٹیرین کھانے کی ترغیب  دیتی نظر آتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ’دی فروٹ آف مائی وومن‘ نے  ’دی ویجیٹیرین‘ کے لیے سنگ بنیادکا کام کیا۔’دی ویجیٹیرین‘ کی شہرت کے بعد ہان نے کہا تھا کہ مجھے ان کہانیوں کی تحریک کورین فکشن نویس  یی سانگ کے قول’میرا عقیدہ  ہے کہ انسان کو پودا بن جانا چاہیے‘سے ملی تھی۔

ہان اپنی تمام تخلیقات میں اکثرنئی زمینوں کودریافت کرتی  ہیں۔ مثلاً، ان کی پیچیدہ، لیکن مترنم تخلیق ’دی وہائٹ بک‘(کوریائی نام’ہن‘)بے مثال کرافٹ کادلکش نمونہ ہے۔ اس تخلیق  کا موضوع’سفید رنگ ‘ ہے، جسے ان کا ملک سوگ کی علامت گردانتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ہان نے یہ ناول اپنی ماں کی موت سےمضطرب  ہوکر لکھنا شروع کیا تھا۔ پیدائش کےصرف دو ڈھائی گھنٹے بعد ایک نوزائیدہ بچے کی موت اور اس سے پیدا ہونے والی ٹریجڈی پر مبنی اس ناول میں ہان نے رنج و الم،مسرت و شادمانی اور حیات و موت جیسے پہلوؤں  کو انتہائی  منفرد انداز میں خلق کیا ہے۔ یہ ناول فکشن  اور سوانحی اسلوب، یوں کہیں کہ یادداشت کے امتزاج کو پیش کرتا ہے۔

ہان کانگ اپنی یادداشت، رائیگانی کے احساس  اور زندگی کی نزاکتوں کو منعکس  کرنے کے لیے سفید اشیاء ( برف، چاول ،سفید پھول، سفیدکورا کاغذ وغیرہ ) کی تمثیل کو بروئے کار لاتی ہیں۔ یہ ناول شخصی اور ذاتی صدمے کو وسیع تر وجودی سوالوں کا حوالہ بناتا ہے، جس کے باعث انتہائی صاف شفاف پیرایےمیں ایک ایسی تخلیق منصہ شہود پر آتی ہے جو بیانیہ  کی تمام ترہولناکی کے باوجود انتہائی دلکش ہےاورخود شناسی کے جذبے سے مملو بھی ہے۔ اس کا اسلوب’دی ویجیٹیرین‘سے مختلف ہے، لیکن یہ ناول بھی جذبات کی لہروں اور فلسفیانہ رموز و علائم  سے  اسی گہرائی اور کامیابی کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔

بین الاقوامی اور کوریائی  ادبی معاشرہ ابھی’دی ویجیٹیرین‘ کی کامیابی کے سحرمیں  ہی تھا کہ ہان نے 2023 میں اپنی نئی تخلیق  سے اپنے قارئین کو حیران کر دیا۔ چھاکبیلہاجی آنندہ نامی اس  ناول کا فرانسیسی ترجمہ ’آئی ڈو ناٹ بڈ فیئر ویل‘ایملی یی وون نے کیا ہے۔ ایملی عصری کوریائی ادب کے ترجمے کے میدان میں ایک بڑا نام ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ ’وی ڈو ناٹ پارٹ‘جلد ہی شائع ہونے کا امکان ہے۔

ہان کی یہ تخلیق 3 اپریل کے تاریخی جےجو واقعہ کو تین عورتوں  کےتوسط سےپیش کرتی ہے۔ یہ واقعہ 1948 میں جنوبی کوریا کے جےجو جزیرے پر پیش آیا تھا،جس میں حکومت کے خلاف بغاوت اور اس کے بعد تشدد کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ جنوبی کوریا کی تاریخ کا ایک اہم اور المناک باب ہے۔ یہ کتاب ٹریجڈی اور یادداشت سے مکالمہ کرتی ہے۔ یہ ناول انفرادی اور اجتماعی وقار کے ذریعے انسانوں پر مختلف صدمات کے اثرات کو پیش  کرتا ہے۔

یہ ناول بیگانگی اورجدائی کے درد اور کسی بھی سانحے کے بعد زندگی کے معنی تلاش کرنے کی جدوجہد کی کہانی بیان کرتا ہے۔ ایک تاریخی سانحہ کے سائے میں عورتیں  اپنی زندگی کس طرح بسر کرتی  ہیں اور تشدد کی میراث اور رائیگانی کے احساس سے نبردآزما ہوتی ہیں، یہ ناول اس کی گاتھا ہے۔

آج نوبل انعام کی صورت میں ہان کو جس اعزاز سے سرفراز کیا گیا ہے وہ اس کی مستحق ہیں اور ان کی تصنیفات دنیا بھر کے قارئین اور شائقین ادب کو اس کا ثبوت فراہم  کرتی ہیں۔

جس دن ہان کانگ کو یہ ایوارڈ ملا وہ ایک اور لحاظ سے بھی خاص ہے۔ دراصل، جنوبی کوریا 9 اکتوبر کو ہانگول ڈے کے طور پر مناتا ہے۔ کورین زبان جس رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اسے ہانگول کہتے ہیں۔ جنوبی کوریا ہر سال اس دن کو اپنی زبان کے اعزاز میں بڑی خوشی اور جوش و خروش سے مناتا ہے جو چینی اور دیگر قدیم ایشیائی زبانوں کے مقابلے میں صرف ساڑھے پانچ سو سال پرانی ہے۔ دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیاں اور اسکول جہاں کورین زبان سکھائی جاتی ہے وہ اس دن کا جشن برپا کرتے ہیں۔

یوں دیکھیں تو جس وقت  جنوبی کوریا اپنی زبان کا جشن منا رہا تھا،اس کی ایک ادیبہ  اپنے رسم الخط، اپنی  زبان اور اپنے ملک کو ایک نایاب تحفہ دے رہی تھی۔

غور کریں،’ہان‘ جنوبی کوریائی زبان کا نمائندہ لفظ ہے۔ یہ ان تمام احساسات کی ترجمانی  کرتا ہے، جنہیں کوریا اپنی شناخت کی علامت گردانتا ہے۔ آج جنوبی کوریا جشن منا رہا ہےاپنے وجود، اپنی زبان اور اپنے ادب کا، اس بین الاقوامی اعزاز کا ۔

(کماری روہنی، کورین زبان کی اسکالر ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی میں پڑھاتی ہیں۔)