سنگاپور کی انفو کام میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ثقافت، کمیونٹی اور نوجوانوں کی وزارت اور وزارت داخلہ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ فلم سنگاپور کی فلم کی درجہ بندی کے رہنما خطوط کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔
نئی دہلی: وادی کشمیر سے ہندوؤں کے انخلا پر بنی ہندی فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کی نمائش پر سنگاپور میں پابندی لگائی جائے گی کیونکہ اس فلم کو مقامی فلم کی درجہ بندی کے رہنما خطوط کے دائرے سے باہر پایا گیا ہے۔ یہ بات سوموار کو ایک خبر میں کہی گئی ہے۔
انفوکام میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (آئی ڈی ایم اے) نے ثقافت، کمیونٹی اور نوجوانوں کی وزارت اور وزارت داخلہ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ حکام نے ہندی زبان کی فلم کو سنگاپور کی فلم کی درجہ بندی کے رہنما خطوط کے معیار سے باہر پایا ہے۔
حکام نے چینل نیوز ایشیا کو بتایا، فلم کشمیر میں مسلمانوں کی یک طرفہ اور اشتعال انگیز تصویر کشی اور کشمیر میں جاری جدوجہد میں ہندوؤں کے استحصال کو دکھانے کی وجہ سے درجہ بندی کے رہنما خطوط کے مطابق نہیں پائی گئی۔
انہوں نے کہا، اس طرح کی نمائندگی مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی اور ہمارے کثیر النسل اور کثیر المذہبی معاشرے میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلم کی درجہ بندی کے رہنما خطوط کے تحت سنگاپور میں نسلی یا مذہبی برادریوں کے لیے توہین آمیز مواد کی اجازت نہیں ہے۔
گزشتہ 11 مارچ کو ریلیز ہونے کے بعد سے فلم کو ملا جلا ردعمل ملا ہے۔ وویک اگنی ہوتری کی لکھی اور ہدایت کاری میں دی کشمیر فائلز، پاکستان حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے کشمیری پنڈتوں کے منصوبہ بند قتل کے بعد کشمیر سے کمیونٹی کے انخلا کو پیش کرتی ہے۔
اس فلم کو لے کر سیاسی جماعتوں میں بھی بحث چھڑ گئی تھی۔ جہاں اس فلم کو بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے بھرپور بڑھاوا دیا جارہا ہے اور تمام بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں اس فلم کو ٹیکس فری قرار دیا گیا اور کئی ریاستوں میں سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کے لیے خصوصی چھٹی دی گئی، وہیں اپوزیشن نے فلم کو یک طرفہ اور انتہائی متشدد بتایا تھا۔
فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کی ریلیز کے بعد سیاسی تنازعہ کے درمیان مرکزی وزارت داخلہ نے وویک اگنی ہوتری کو سی آر پی ایف کی وائی زمرہ کی سکیورٹی دی تھی۔
سینما گھروں میں فلم کی نمائش کے دوران فرقہ وارانہ نعرے بھی لگائے گئے تھے۔ دی وائر کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ فلم کی ریلیز کے ابتدائی ہفتوں میں تشدد پسند نوجوانوں نے تشدد پر اکسانے اور مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے کی غرض سے کئی ویڈیوز بنائے تھے۔
ان ویڈیوز کو بنانے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے بہت سے لوگ طویل عرصے سے فرقہ وارانہ مہم کا حصہ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،بہت سے دوسرے لوگ ہیٹ اسپیچ اور ‘لو جہاد’ جیسے ایشو پر نفرت پھیلانے یا مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کرنے میں سرگرم رہے ہیں۔ ان کارکنوں کے ذریعہ بنائے گئے اور پوسٹ کیے گئے ویڈیوز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ فلم ہندوتوا کے ایکو سسٹم کے لیے نفرت کو بھڑکانے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)