نریندر مودی کا یوکرین دورہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ یہ تقریباً 30 سالوں میں کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن (بائیں) اور یوکرین کے صدر دلودیمیرزیلینسکی کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@narendramodi/PIB)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی تین روزہ دورے پر ملک سے باہر ہیں۔ پہلے پولینڈ پھر اس کے بعد یوکرین۔ کییف نے 23 اگست کو یوکرین کے یوم آزادی کے موقع پر اور مودی کے ماسکو دورے کے ٹھیک ایک ماہ بعد نریندر مودی کا خیرمقدم کیا۔ پی ایم مودی کے یوکرین کے دورے پر پوری دنیا کی نظر ہے۔
یہ دورہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ تقریباً 30 سالوں میں کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا یوکرین کا یہ پہلا دورہ ہے۔
وزیر اعظم مودی کے یوکرین کے دورے کی اہمیت؟
فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد کییف اور اس کے اتحادی ممالک کے اعتراضات کے باوجود ہندوستان نے روس کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ اس لیے مودی کا یہ دورہ یوکرینی میزبانوں کے ذہنوں میں ملے جلے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔
رواں سال جولائی کے مہینے میں جب پی ایم مودی روس کے دورے پر تھے، روس نے یوکرین میں بچوں کے اسپتال پر جان لیوا حملہ کیا تھا۔ اسپتال پر حملے کے بعد
پی ایم مودی نے کہا تھا،’جب معصوم بچوں کو مار دیا جاتا ہے، تو دل رو پڑتا ہے اور یہ درد بہت ہولناک ہوتا ہے۔’
یوکرین کے صدر دلودیمیرزیلینسکی سمیت امریکہ نے مودی کے دورے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یوکرینی صدر نے
ایکس پر لکھا تھا ، ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما کو ماسکو میں دنیا کے سب سے بڑے مجرم کو گلے لگاتے دیکھنا مایوس کن اور امن کی کوششوں کے لیے ایک تباہ کن دھچکا ہے۔’
آج ایک ماہ بعد یوکرین ہندوستانی وزیر اعظم کی میزبانی کر رہا ہے۔ پی ایم مودی کے یوکرین پہنچنے کے بعد زیلینسکی نے ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا، جس میں مودی اور زیلینسکی ان بچوں کی یاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جنہیں روسی جارحیت کی وجہ سے اپنی جان گنوانی پڑی۔
زیلینسکی نے لکھا، ‘آج کییف میں وزیر اعظم نریندر مودی اور میں نے ان بچوں کو خراج عقیدت پیش کیا، جن کی جانیں روسی حملے میں چلی گئیں۔ ہر ملک میں بچے محفوظ ماحول میں رہنے کے مستحق ہیں، ہمیں اسے ممکن بنانا ہوگا۔‘
مودی کے یوکرین کے دورے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دورہ ہندوستان کے لیے امن مذاکرات پر زور دینے کا موقع ہے۔
سوموار (19 اگست) کو وزیر اعظم نریندر مودی کے پولینڈ اور یوکرین کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے سکریٹری
تنمے لال نے کہا تھا کہ ہندوستان کے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ ‘مضبوط اور آزادانہ’ تعلقات ہیں جو ‘اپنے دم پر’ کھڑے ہیں۔
تنمے لال نے یہ بات اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی تھی کہ کیا وزیر اعظم کا دورہ کییف جولائی میں روس کے دورے پر مغربی ممالک کی تنقید کا جواب ہے؟
‘وزیراعظم نے روس کا دورہ بھی کیا تھا، اس دوران کئی امور پر بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم گزشتہ ایک سال کے دوران چند مواقع پر صدر زیلینسکی سے بھی مل چکے ہیں اور اب وہ یوکرین میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازعہ ان کی بات چیت کا حصہ بنے گا‘، لال نے میڈیا کو بتایا تھا۔
تنمے لال نے کہا کہ مودی اور زیلینسکی کی ملاقات زراعت، معیشت، دفاع اوردواسازی سمیت دیگرتعلقات کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گی۔
وزیر اعظم کے اس دورے کے بعد ہندوستان کے لیے سفارتی توازن برقرار رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔ کیونکہ ہندوستان کے روس کے ساتھ روایتی طور پر اچھے تعلقات ہیں۔ یوکرین بھی ہندوستان کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ یوکرین کو مغرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اور ہندوستان کے مغرب کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات ہیں۔
سابق ہندوستانی سفیر راجیو بھاٹیہ نے جرمن نیوز چینل
ڈی ڈبلیو سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، ‘یوکرین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا ہندوستان کے لیےچیلنج ہوگا۔ خاص طور پر جب ہندوستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے اوراس کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ وہیں یوکرین کو مغرب کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اس لیے یہ بھی ہندوستان کے لیے اہم ہے۔‘
روس ہندوستان کے لیے کیوں اہم ہے؟
روس ہندوستان کا روایتی اتحادی رہا ہے۔
امریکہ اور یوکرین سمیت دیگر ممالک کی تنقید کے باوجود پی ایم مودی نے جولائی کے مہینے میں روس کا دورہ کیا جہاں انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کو گلے لگایا۔ سال 2022 میں یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑ گیا ہے لیکن ہندوستان اپنے اس پرانے اتحادی سے کبھی دستبردار نہیں ہوا۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق، ہندوستان اپنا 40 فیصد سے زیادپ تیل اور 60 فیصد ہتھیار روس سے خریدتا ہے۔ اس کے علاوہ کثیر مقدار میں کوئلہ، کھاد، سبزیوں کا تیل اور قیمتی دھاتیں بھی روس سے درآمد کرتا ہے۔ اس لحاظ سے روس ہندوستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
یوکرین پر حملے کے بعد مغرب نے روس پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں، لیکن یہ صورتحال ہندوستان کے حق میں کام کر رہی ہے، کیونکہ یہ ماسکو کو ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ تمام پابندیوں کے باوجود ہندوستان روس سے تیل خریدنا جاری رکھے گا۔ جرمنی میں میونخ سیکورٹی کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے پاس تیل کے کئی ذرائع ہیں، روس بھی ان میں سے ایک ہے۔
جئے شنکر سے
پوچھا گیا تھاکہ ہندوستان روس کے ساتھ تجارت جاری رکھتے ہوئے امریکہ کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو کس طرح متوازن کر رہا ہے؟ اس کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ہندوستان کے لیے روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر تنہا ہونے کے بعد روس چین کے مزید قریب آ سکتا ہے اور چین ایشیا میں ہندوستان کا اہم حریف ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے لیے خطرہ بھی ہے۔
پی ایم مودی کے یوکرین کے دورے کے اثرات
روس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات پرانے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران ہندوستان سوویت یونین کے قریب تھا۔ یوکرین 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پیدا ہوا تھا، لیکن سوویت یونین اور بعد میں روس کی طرف ہندوستان کا لگاؤ یوکرین تک نہ بڑھ سکا۔
یوکرین ہمیشہ سے یورپ کا ایک اہم ملک رہا ہے، لیکن روس کے تئیں ہندوستان کے تعصب نے شاید نئی دہلی کو وسطی اور مشرقی یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مکمل طور پر آگے بڑھانے سے روکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کا یہ دورہ ایک اہم تبدیلی کی علامت بن سکتا ہے۔
پی ایم مودی کا یہ دورہ تجارتی نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ فروری 2022 میں روس-یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد ہندوستان اور یوکرین کے باہمی تعلقات کو دھچکا لگا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان اور یوکرین کے درمیان تجارت 2021-22 میں 3.39 بلین ڈالر سے کم ہو کر سال 2022-23 اور 2023-24 میں بالترتیب 0.78 بلین ڈالر اور 0.71 بلین ڈالر رہ گئی۔ ہندوستان کی کوشش ہوگی کہ پی ایم کے اس دورے کے ذریعے یوکرین کے ساتھ تجارتی تعلقات کوسابقہ حالت میں لایا جاسکے۔
وزیر اعظم مودی کے اس دورے کو نئی دہلی کے ساتھ کییف کے تعلقات کو بہتر بنانے کی
پہل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔ یوکرین میں جنگ کے بعد کی تعمیر نو ہندوستان کے لیے امید افزا مواقع فراہم کرے گی۔ دونوں ملک دفاع اور تجارت میں مل کر کام کر سکتے ہیں۔ یوکرین دنیا کی بڑی زرعی طاقتوں میں سے ایک ہے جو آنے والے وقتوں میں عالمی سطح پر اس کی اہمیت میں اضافہ کرے گا۔چنانچہ ہندوستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرے۔
ہندوستان ہمیشہ سے امن کی وکالت کرتا رہا ہے۔ ہندوستان دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے امن کے سفیر کے طور پر کام کرسکتا ہے۔ اپنے یوکرین کے دورے سے ٹھیک پہلے پولینڈ کے دورے کے دوران، پی ایم مودی نے جمعرات (22 اگست) کو کہا کہ ، ‘ہندوستان امن اور استحکام کی جلد بحالی کے لیے بات چیت اور سفارت کاری کی حمایت کرتا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘ اس تناظر میں بھی یوکرین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو بحال کرنا ضروری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یوکرین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کی بحالی کے بعد روس کے ساتھ اس کے رشتے میں تبدیلی کے امکانات کم ہیں۔ ہندوستان ایک مضبوط ملک ہے جو کسی کی مداخلت کے بغیر اپنے فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان اور روس دونوں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی طرف سے لگائی گئی تجارتی پابندیاں روس کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی اگر اسے ہندوستان کی حمایت نہ ملتی۔
ہندوستان اور روس تعلقات میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے کیا مفادات ہیں؟
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک مودی کی پوتن سے ملاقات سے ناخوش ہیں۔ تاہم، مغرب بھی نہیں چاہتا کہ ہندوستان ماسکو میں اپنا اثر و رسوخ کھو دے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح روس اور چین کے تعلقات مضبوط ہوں گے۔ اور مغرب کوان دونوں ممالک کا ایک ساتھ آنا راس نہیں آئے گا۔