مدھیہ پردیش میں سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی قیادت اور ریاست کی شیوراج سنگھ چوہان حکومت کو اقتدار کے کھونے کا ڈر ستا رہا ہے۔ تاہم، مدھیہ پردیش اور کرناٹک کی نسلی، سماجی اور سیاسی صورتحال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔
کرناٹک کے حالیہ انتخابی نتائج میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو منھ کی کھانی پڑی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا چہرہ، کٹر ہندوتوا کی طویل مہم اور راشٹرواد (قوم پرستی) جیسے مسائل پر مقامی مسائل حاوی رہے، جس کے نتیجے میں کانگریس 224 رکنی اسمبلی میں 135 نشستیں جیت کر اقتدار میں واپس آئی اور بی جے پی صرف 66 نشستوں پر سمٹ کررہ گئی۔
کانگریس کی اس زبردست جیت نے مدھیہ پردیش میں بھی سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اقتدار میں اس کی واپسی کی امیدیں بڑھا دی ہیں۔گزشتہ 22 مئی کو پارٹی کے قومی ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ میں کرناٹک کی طرز پر مدھیہ پردیش کی عوام سے پانچ وعدے کیے گئے اور کہا گیا کہ ‘ مدھیہ پردیش کے لوگوں سے کانگریس کا وعدہ… کرناٹک میں ہم نے وعدہ نبھایا، اب ایم پی میں بھی نبھائیں گے۔
मध्य प्रदेश की जनता से कांग्रेस का वादा
गैस सिलेंडर: 500 रुपए
हर महिला को 1,500 रुपए प्रति महीना
बिजली: 100 यूनिट माफ, 200 यूनिट हाफ
किसानों का कर्ज माफ
पुरानी पेंशन योजना लागू होगीकर्नाटक में हमने वादा निभाया-अब MP में निभाएंगे
जय जनता-जय कांग्रेस ✋️
— Congress (@INCIndia) May 22, 2023
کانگریس پارٹی کے اس بڑھے ہوئے حوصلے کے درمیان بی جے پی کے لیےیہ کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک کے نتائج نے مدھیہ پردیش سے لے کر مرکز تک پارٹی قیادت کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں نمایاں کر دی ہیں۔ تاہم، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان گزشتہ دنوں یہ کہتے ہوئے نظر آئے تھے کہ، ‘یہ کرناٹک-فرناٹک کیا ہے؟ یہ مدھیہ پردیش ہے۔ یہاں ہم بڑے دھوم دھام سے جیت کا ریکارڈ بنائیں گے۔ ان (کانگریس) کے پاس کیا ہے، ہمارے پاس نریندر مودی ہیں۔ دن رات محنت کرنے والے کارکن ہیں۔ کانگریس کہیں سے بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ میرے ترکش میں ابھی بہت سے تیر ہیں۔’
وزیر اعلیٰ بھلے ہی یہ دعوے کریں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کرناٹک میں بھی بی جے پی کے پاس نریندر مودی تھے۔ کرناٹک میں بھی بی جے پی کٹر ہندوتوا اور راشٹر واد کے رتھ پر سوار تھی اور مدھیہ پردیش میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ تو سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا کرناٹک کے نتائج مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے لیےتشویش کا باعث ہیں اور مدھیہ پردیش کے انتخابات پر ان کا کتنا اثر ہوسکتا ہے؟
مدھیہ پردیش کے سیاسی مبصر اور صحافت کے میدان میں درس و تدریس سے وابستہ جینت سنگھ تومر کہتے ہیں،’کانگریس ریاست میں ان نتائج سے پرجوش اور متحد ہوئی ہے۔ وہیں، بی جے پی میں ہر روز کچھ نہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس میں انتشار نظر آ رہا ہے، چاہے وہ بی جے پی لیڈروں کا کانگریس میں شامل ہونا رہا ہو یا ساگر ضلع کے کچھ وزراء اور ایم ایل اے کاناراض ہو کر وزیر اعلیٰ تک پہنچنا ہویا سندھیا فیکٹر ہو (کہ کانگریس تو انہیں گھیر ہی رہی ہے، لیکن بی جے پی کے اندر بھی لوگ چاہتے ہیں کہ دھیرے دھیرےان کا حیثیت اپنے آپ ہی ختم ہوجائے)۔
وہ مزید کہتے ہیں،’شیوراج بھی ڈگمگائے ہوئے ہیں کیونکہ ان پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا ہے، چاہے وہ سابق وزیر اجئے وشنوئی ہوں یا بھنور سنگھ شیکھاوت۔وہیں، مالوہ میں جئے آدیواسی یوا شکتی سنگٹھن (جے اے وائی ایس) اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ تو نہیں کہہ سکتےلیکن کچھ سیٹوں پر اثر ضرور ڈالیں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں،’وندھیا میں بھی بی جے پی میں اس بات پر ناراضگی ہے کہ اتنی سیٹیں ملنے کے بعد بھی اسے کابینہ میں مناسب نمائندگی نہیں ملی۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر بی جے پی میں ذرا سا انتشار کا ماحول ہے۔ حالانکہ یہ سب بی جے پی میں پہلے سے ہی چل رہا ہے لیکن کرناٹک کے نتائج نے آگ میں گھی کا کام کیا ہے اور کانگریس کا جوش بڑھا کر بی جے پی کے لیے ایک اور نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔
ریاست کے سینئر صحافی پرکاش ہندوستانی بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،کرناٹک کے نتائج براہ راست مدھیہ پردیش کی سیاست کو متاثر نہیں کرتے ہیں، لیکن دونوں اہم پارٹیوں کے حوصلے کو ضرور متاثر کرتے ہیں۔ اس سے کافی فرق پڑتا ہے۔ جہاں کانگریس کا حوصلہ بلند ہوا ہے وہیں بی جے پی کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ بی جے پی سمجھتی تھی کہ اسے کوئی نہیں ہرا سکتا، وہ ناقابل شکست ہے، لیکن اب یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم بھی ہار سکتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں،’راہل کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ میں ریاست کے آدی واسی علاقوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ راہل برہان پور، کھرگون، کھنڈوا اور بڑوانی جیسے قبائلی اضلاع میں گئے۔ اب اسے کرناٹک کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو وہاں کی 15 قبائلی سیٹوں میں سے بی جے پی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔ اس لیے بی جے پی کو فکر مند ہونا چاہیے۔
بتادیں کہ 230 رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی میں 20 فیصد یعنی 47 سیٹیں شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کمیونٹی کے لیے مخصوص ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ریاست کی تقریباً 70 سے 80 سیٹوں پر قبائلی ووٹروں کا اثر ہے۔
سال 2003 میں ریاست میں بی جے پی کی واپسی میں قبائلی طبقے کا اہم کردار تھا۔ اگلے دو انتخابات میں بھی آدی واسی بی جے پی کے ساتھ رہے اور وہ اقتدار میں بنی رہی۔ لیکن، 2018 میں پانسہ پلٹ گیا۔ 2013 میں 31 ایس ٹی سیٹ جیتنے والی بی جے پی2018 میں 16 پرسمٹ گئی اور کانگریس کی سیٹیں 15 سے بڑھ کر 30 ہوگئیں، جس کی وجہ سے اس نے حکومت بنا لی۔
اس الیکشن میں بی جے پی نے کل 109 اور کانگریس نے 114 سیٹیں جیتی تھیں۔ جیت اور ہار کا مارجن اتنا کم تھا کہ اگر قبائلی ووٹروں نے بی جے پی سے علیحدگی اختیار نہیں کی ہوتی تواسی کی حکومت بنتی۔
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت اب قبائلی ووٹروں کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے اور پچھلے دو سالوں سے ریاست میں بی جے پی کی سیاست قبائلی مرکوز ہو گئی ہے۔ مرکزی سیاست کے تین سب سے بڑے ستون، وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور صدر نے اس دوران قبائلیوں سے متعلق تقریبات میں شرکت کی ہے۔
ماہرین کا یہاں تک ماننا ہے کہ بی جے پی کی طرف سے ایک آدی واسی کوصدر بنانا بھی ملک بھر کے قبائلیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ایک قدم تھا۔ اس کے باوجود، کرناٹک میں تمام قبائلی نشستوں پر پارٹی کی شکست سب سے زیادہ قبائلی آبادی والی ریاست مدھیہ پردیش میں فطری طور پراس کے خدشات کو بڑھا سکتی ہے۔
تاہم ،پرکاش ہندوستانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بی جے پی آئندہ انتخابات میں ہارتی ہے تو اپنی وجہ سے ہارے گی ، کانگریس کی طاقت نہیں کہ اسے ہرا پائے۔
لیکن، کانگریس کی طاقت کے حوالے سے سنگھ کے نظریے سے اتفاق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار لوکیندر سنگھ ایک اہم بات کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ کہیں نہ کہیں کانگریس کو نفسیاتی فائدہ پہنچا ہے۔ پارٹی میں جوش پیدا ہوا ہے اور توانائی آئی ہے اور وہ تندہی سے کام کر سکیں گے۔ اس لحاظ سے کانگریس فائدے میں ہے۔
لوکیندر بتاتے ہیں کہ کانگریس کے بڑے لیڈر زمین پر جا کر کارکنوں کو منا رہے ہیں اور متحد کر رہے ہیں۔ دگوجئے سنگھ منڈل سطح پر مسلسل میٹنگ کر رہے ہیں اور پارٹی میں تال میل کا کام کر رہے ہیں، لیکن یہ مشق ابھی تک بی جے پی میں شروع نہیں ہوئی ہے، جبکہ بی جے پی کو یہ کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اس کے لیڈروں اور کارکنوں میں ناراضگی زیادہ ہے۔ اور پارٹی میں کارکن زیادہ ہیں، ٹکٹ کے دعویداروں کی تعداد زیادہ ہے، اس لحاظ سے بی جے پی کو زمینی تال میل کا کام شروع کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن، کانگریس نے شروع کردیا اور اب کانگریس کے پاس کارکنوں میں توانائی پیدا کرنے کے لیے کرناٹک کی مثال موجود ہے، جس سے کارکنوں کے اندر مدھیہ پردیش میں بھی جیت کے لیے زور لگانے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
مدھیہ پردیش میں حکومت مخالف لہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینئر صحافی شمس الرحمان علوی کہتے ہیں کہ کرناٹک میں بی جے پی کی شکست سے مدھیہ پردیش میں بھی امیدیں بڑھ گئی ہیں کہ یہاں بھی ماما (شیوراج سنگھ) کا چہرہ بہت پرانا ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں،’کرناٹک کے نتائج کے بعد ہوا یہ ہے کہ کانگریس کےکیڈر میں ایک امید پیدا ہوئی ہے اور بی جے پی میں ایک اندرونی احساس آیا ہوگا کہ عوام ناراض ہو رہی ہے اور وہ مدھیہ پردیش میں بھی کہہ سکتی ہے کہ بہت ہو گیا ماما جی کا چہرہ۔
کرناٹک کے نتائج مدھیہ پردیش پر کوئی براہ راست اثر نہیں ڈالتے ہیں
تاہم، ریاست کی ایک سینئر خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ عام طور پر کسی بھی ریاست کا انتخاب دوسری ریاست کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ وہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتی ہیں،’لوک سبھا انتخابات میں تو ملک بھر میں ایک بیانیہ چل سکتا ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں نہیں چل پاتا۔ کرناٹک ہندوستان کی ایک جنوبی ریاست ہے، جہاں کے حالات، صورتحال، معیشت اور لوگوں کے مزاج، ان کے مسائل مدھیہ پردیش سے مختلف ہیں۔ حالانکہ بنیادی مسائل ہر جگہ تقریباً ایک جیسےہوتے ہیں جیسے کہ روزگار، انفراسٹرکچر۔ لیکن لوگوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ راجستھان کی طرح ہی کرناٹک کے لوگ بھی ہر پانچ سال بعد حکومت بدل دیتے ہیں، جبکہ مدھیہ پردیش کا کلچر یہ رہا ہے کہ یہاں ایک ہی پارٹی کی حکومت طویل عرصے تک حکومت کرتی رہی ہے۔ پہلے کانگریس نے کیا، اب بی جے پی کر رہی ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں،’دونوں ریاستوں کے انتخابات بہت مختلف ہیں۔ مدھیہ پردیش، شمالی ہندوستان یعنی ہندی پٹی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کی سوچ اور وہاں کے لوگوں کی سوچ بہت مختلف ہے۔ یہاں ذات پات اور مذہبی صورتحال اور مذہب اور قوم پرستی کے بارے میں لوگوں کا رویہ مختلف ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ کرناٹک انتخابات کا مدھیہ پردیش پر سیدھا اثر پڑے گا۔
لوکیندر بھی اس طرح کہتے ہیں،’کرناٹک کے انتخابی نتائج کا مدھیہ پردیش پر اتنا خاص اثر نہیں پڑے گا۔ دونوں جگہوں کے مسائل اور سیاسی اور نسلی صورتحال اور حالات مختلف ہیں۔ وہاں تین اہم سیاسی پارٹیاں تھیں، جن میں سے ایک پارٹی (جے ڈی ایس) پوری طرح سے کمزور تھی اور اس کا ووٹ بینک پوری طرح سے کانگریس کی طرف چلا گیا، جس کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان اٹھانا پڑا۔ بھلے ہی بی جے پی کا ووٹ بینک جوں کا توں رہا ہو، لیکن دوسری پارٹی کا ووٹ بینک کانگریس کی طرف چلا گیا، اس لیے وہاں اس نے اچھی جیت حاصل کی۔
شمس بھی کہتے ہیں کہ کرناٹک نے بی جے پی کو دھکا بھلے ہی دیا ہے، لیکن ان کا ووٹ کم نہیں ہوا ہے، بلکہ کانگریس کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کرناٹک میں مقابلہ بھی سہ رخی تھا، مدھیہ پردیش میں ایسا نہیں ہے۔
اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو سال 2008 سے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل ہوئے، لیکن مدھیہ پردیش میں جو بھی نتائج آتے ہیں وہ کرناٹک کے نتائج سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2008 میں، بی جے پی کرناٹک میں 110 سیٹیں جیت کر اکثریت سے دور رہ گئی تھی، جبکہ کانگریس کو 80 اور جنتا دل (سیکولر) کو 28 سیٹیں ملی تھی ،وہیں چند ماہ بعد مدھیہ پردیش میں، بی جے پی نے 143 سیٹیں جیت کر زبردست اکثریت حاصل کی تھی اور کانگریس کو 71 سیٹوں سے مطمئن ہونا پڑا تھا۔
سال 2013 میں، بی جے پی کو کرناٹک میں صرف 40 سیٹیں ملی تھیں (جس کی ایک وجہ بی ایس یدی یورپا کا پارٹی سے الگ ہوکر اپنی پارٹی بنانا تھا) اور کانگریس نے 122 سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی، لیکن مدھیہ پردیش میں اسےشرمناک ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ صرف 58 سیٹیں جیت سکی۔ اس وقت مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے ریکارڈ توڑ مظاہر کرتے ہوئے میں 165 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ 2018 کی بات کریں تو بی جے پی کرناٹک میں واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، وہیں کانگریس مدھیہ پردیش میں واحد سب سے بڑی پارٹی تھی اور اس نے حکومت بھی بنائی۔
قابل ذکر ہے کہ 2013 میں مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت کے خلاف ویاپم گھوٹالہ، ڈمپر گھوٹالہ اور نرمدا میں جل ستیہ گرہ اور 2018 میں مندسور فائرنگ جیسے بڑے ایشوز کام کر رہے تھے، اس کے باوجود پارٹی نے کرناٹک کے نتائج سے متاثر ہوئے بغیر حکومت بنائی۔ اس بار ایسا کوئی بڑا مسئلہ شیوراج حکومت کو چیلنج کرتا ہوانظر نہیں آتا۔
اس لیے سینئر خاتون صحافی بھی اس بات کا اعادہ کرتی ہیں کہ،’کرناٹک کے نتائج صرف دونوں پارٹیوں کے کیڈر کے حوصلے کو متاثر کریں گے۔ کانگریس کو اچھا لگے گا کہ اسے ایک بڑی ریاست میں بڑی جیت ملی ہے، جس کی وجہ سے وہ محنت کرے گی۔ دوسری طرف بی جے پی کے حوصلے پست ہوئے کہ کرناٹک میں ہم نے فرقہ پرستی، مودی، قوم پرستی سب کچھ آزمایا لیکن پھر بھی ہار گئے۔ اس لیے بی جے پی کے اندر گھبراہٹ ضرور بڑھی ہوگی۔ شاید اسی بڑھتی ہوئی گھبراہٹ کی وجہ سے بی جے پی میں اندرونی کشمکش کی خبریں آنے لگی ہیں، جو پہلے کبھی نہیں ہوتی تھیں۔
کانگریس کے حوصلے بڑھنے کی بار بار کی جانے والی باتوں کی ایک مثال ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور راجیہ سبھا ایم پی دگوجئے سنگھ کے بیان میں بھی دیکھنے کو ملی، جب انہوں نے کہا، ‘پہلے ہمیں 126-130 سیٹیں جیتنے کی امید تھی، اب ہم 140سے 150 سیٹیں جیتیں گے۔
کیا مدھیہ پردیش کے معاملے میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کا چہرہ فیصلہ کن ہو گا ؟
بی جے پی نے کرناٹک میں تقریباً ساڑھے تین سال تک حکومت چلائی، جس میں دو وزرائے اعلیٰ بی ایس یدیورپا اور بسوراج بومئی تھے۔ یعنی وہاں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ جیسا کوئی مستقل اور ہر طبقے میں مقبول چہرہ نہیں تھا۔ مدھیہ پردیش میں ‘ماما’ کے نام سے مشہور شیوراج کی موجودگی دونوں ریاستوں کے درمیان بڑا فرق پیدا کرتی ہے۔ تاہم پرکاش ہندوستانی کی رائے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’مدھیہ پردیش میں بھی کوئی چہرہ نہیں ہے، کرناٹک کی طرح یہاں بھی چہرہ مودی ہی ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں،’شیوراج سنگھ کی ہر تقریر، ہر اعلان اور ہر پلان میں مودی کا کئی کئی بار ذکر ہوتا ہے۔ وہ مودی کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔
پرکاش ہندوستانی کی بات بہت حد تک منطقی لگتی ہے، کیونکہ جب سے جیوترادتیہ سندھیا کی کانگریس کے ساتھ بغاوت کے بعد بی جے پی نے شیوراج کی قیادت میں حکومت بنائی ہے، تب سے شیوراج بدلے بدلے سے ہیں۔ شیو راج، جو کبھی خود وزیر اعظم کے عہدے کے دعویدار تھے، اب مودی کے احسان مند نظر آتے ہیں۔
تاہم،دی وائر سے بات کرنے والے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ کرناٹک کے نتائج نے بی جے پی کے حوصلے پست کیے ہیں، لیکن اس نے شیوراج کے حق میں کام کیا ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت اب ریاست میں قیادت کی تبدیلی یا یوں کہیں کہ ان کے متبادل پر غورنہیں کرے گی۔
وہیں، سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ گجرات اور کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے کئی فارمولے آزمائے تھے، کئی ایم ایل اے اور وزراء کے ٹکٹ کاٹے تھے، عمر کے حساب سے کئی تجربے کیے تھے۔اب وہ مدھیہ پردیش میں ایسا کچھ کرنے سے کترائے گی۔ اس پر تجزیہ کاروں میں اختلاف رائے ہے۔
جینت سنگھ، شمس اور پرکاش ہندوستانی کا ماننا ہے کہ اب بی جے پی کے اندر مدھیہ پردیش میں نئے تجربات یا تبدیلیاں کرنے میں ہچکچاہٹ ہوگی۔ دوسری طرف لوکیندر کا کہنا ہے کہ ’اگر ایم ایل اے اوروزراء کی کارکردگی خراب رہی ہے تو ٹکٹ کٹنے ہی ہیں۔‘اس سلسلے میں مذکورہ خاتون صحافی کہتی ہیں ،’بی جے پی میں ٹکٹ توکٹنے ہی ہیں، بہت کٹنے ہیں… 18 سال کی طویل حکومت مخالف لہر جو بی جے پی کے خلاف ہے۔ انہیں کاٹناہی پڑے ہوگا۔ ان کی مجبوری ہے۔ اگر زمینی سطح کا سروے بتاتا ہے کہ مذکورہ ایم ایل اے کے خلاف غصہ ہے تو پھر انہیں ٹکٹ کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کوئی سیاسی جماعت ایسا نہیں چاہے گی کہ وہاں ہارگئے، اس لیے یہاں کسی کا ٹکٹ نہ کاٹیں۔