فوج نے جموں وکشمیر کے شوپیاں علاقے میں گزشتہ18 جولائی کو تین دہشت گردوں کے انکاؤنٹر میں مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔ وہیں راجوری کے متاثرہ خاندانوں کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر میں مارے گئے لوگ دہشت گرد نہیں، بلکہ مزدور تھے۔
راجوری کے تین نوجوان مزدور جو جولائی میں شوپیاں میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
فوج کوبادی النظرمیں ایسے ثبوت ملے ہیں کہ اس کے جوانوں نے کشمیر کے شوپیاں ضلع میں ہوئے ایک انکاؤنٹر میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ(اے ایف ایس پی اے)کے تحت حاصل اختیارات کی خلاف ورزی کی۔ اس سلسلے میں تادیبی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ حکام نے جمعہ کو یہ جانکاری دی۔
اس سال جولائی میں یہ جھڑپ ہوا تھا اور اس میں تین لوگ مارے گئے تھے۔ جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع کے امشی پورہ گاؤں میں فوج نے 18 جولائی کو تین دہشت گردوں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
سرینگر میں فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران اخلاقی طرز عمل کے لیےپرعزم فوج نے سوشل میڈیا پر سامنے آئی ان رپورٹ کے بعد جانچ شروع کی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جموں کے راجوری ضلع کے رہنے والے تین افراد امشی پورہ سے لاپتہ پائے گئے تھے۔ جانچ کو چار ہفتے کے اندر ہی پورا کر لیا گیا۔
راجوری سےتعلق رکھنے والےمہلوکین کے اہل خانہ نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی تھی، جو کہ شوپیاں میں مزدوری کرتے تھے۔
فوج نے ایک مختصربیان میں کہا کہ جانچ سے کچھ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہم کے دوران اے ایف ایس پی اے 1990 کے تحت دیے گئے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا اور سپریم کورٹ سے منظورشدہ اورآرمی چیف کےوضع کردہ قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔
بیان کے مطابق،نتیجہ کے طو رپرمتعلقہ اتھارٹی نے بادی النظر میں جوابدہ پائے گئے فوجیوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ حالانکہ، یہ ابھی واضح نہیں ہو سکا ہے کہ فوج کے کتنے جوانوں کے خلاف کارر وائی کی جا رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا،‘جمع کیے گئے شواہد دکھاتے ہیں کہ امشی پورہ میں مارے گئے تین نامعلوم دہشت گرد امتیاز احمد، ابرار احمد اور محمد ابرار تھے، جو کہ راجوری کے رہنے والے تھے۔’
جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ جنرل بی ایس راجو نے سوشل میڈیا پر آئی رپورٹ کانوٹس لیتے ہوئے معاملے کی جانچ شروع کی تھی۔اس معاملے کو لےکرمقامی اخباروں میں اشتہاردےکر لوگوں کو کسی بھی طرح کی قابل اعتماد جانکاری فوج کے ساتھ شیئرکرنے کو کہا گیا تھا۔
ایک پولیس افسر نے کہا کہ پولیس تینوں افراد کی کال تفصیلات کھنگالنے کے ساتھ ہی اس بات کی بھی جانچ کر رہی ہے کہ جس کرایے کے مکان میں وہ رہ رہے تھے، وہاں مہم شروع ہونے کے بعد وہ کھڑکی سے کیوں کودے؟ انہوں نے کہا کہ شوپیاں آنے کے بعد سے اسٹریٹجک مقامات پر ان کی موجودگی کو لےکر بھی جانچ کی جا رہی ہے۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 18 جولائی کی صبح فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ شوپیاں کے امشی پورہ میں ایک باٖغ میں تین نامعلوم دہشت گردوں کو مار گرایا گیا ہے۔ حالانکہ، ان کے
گھروالوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ شوپیاں میں مزدور کےطورپر کام کرنے گئے تھے۔
ان دعووں کے بعد فوج اور جموں کشمیر پولیس نے اس معاملے میں الگ الگ جانچ کے احکامات صادر کیے تھے۔امشی پورہ جھڑپ میں مارے گئے تینوں نوجوانوں کے نمونوں کے ساتھ ملان کے لیے شوپیاں پولیس کی ایک ٹیم نے 13 اگست کو راجوری میں جاکراہل خانہ کے ڈی این اے نمونے لیے تھے۔
جمعہ کوفوج نے کہا کہ ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے۔ بیان میں کہا گیا،‘دہشت گردی یامتعلقہ سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے کو لےکر پولیس کے ذریعے جانچ کی جا رہی ہے۔’
جانچ کے گھیرے میں پولیس کا رول
ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ جانچ ایجنسیوں کی جانب سےاسپیشل پولیس افسر(ایس پی او)سمیت تین لوگوں کےرول کی جانچ کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا،‘کشمیر گھاٹی میں تعینات ایس پی او پونچھ سے ہیں۔ دوسرے شخص پلوامہ اور تیسرے شوپیاں سے ہیں۔’حالانکہ،جنوبی کشمیر کے پولیس حکام نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
فیملی کا بیان درج کیا گیا
فوجی اہلکاروں کے ذریعےاے ایف ایس پی اےکے تحت ملے اختیارات کی خلاف ورزی کوفوج نے اس دن قبول کیا جس دن اس نے مارے گئے تینوں نوجوانوں کے اہل خانہ کا بیان ریکارڈ کیا۔تینوں کے اہل خانہ نے راجوری سے سفر کیا اورجمعہ 18 ستمبر کو جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ علاقہ میں وکٹر فورس ہیڈکوارٹر میں فوج کے جانچ افسرکے سامنے پیش کیے گئے۔
اہل خانہ نے فوج کے بیان کو ان کے دعووں کی تصدیق قرار دیا ہے۔جھڑپ میں مارے گئے ابرار احمد کے والد محمد یوسف نے کہا، ‘ہم پہلے ہی دن سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے بچہ ہیں۔ اب سرکار کو چاہیے کہ وہ فوراً لاشوں کو نکالے تاکہ ہم انہیں اپنے قبرستان میں دفن کر سکیں۔’
فی الحال، تینوں نوجوانوں کو بارہمولہ کے گنٹامولہ میں دفن کیا گیا ہے۔متاثرین کی لڑائی میں ان کی مدد کرنے والے راجوری کے ایک سماجی کارکن چودھری گفتار نے ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کی ہے۔انہوں نے کہا، ‘انہیں پھانسی دی جانی چاہیے۔ ان بچوں کا کیا جرم تھا؟ وہ روزگار کے لیے شوپیاں آئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان کی لاش کوفوراً ان کے اہل خانہ کو سونپنے کا مطالبہ کیا۔’
اس سے پہلے دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ تینوں نوجوانوں کے اہل خانہ نے جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا کوخط لکھ کردخل دینے کی مانگ کی تھی تاکہ وہ ان کے لاشوں کو طریقے سے دفن کر سکیں۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے مارچ 2000 میں اننت ناگ کے پتھری بل میں پانچ شہریوں کا قتل کرکے انہیں‘دہشت گرد’ قرار دے دیا گیا تھا۔ حالانکہ
جنوری 2014 میں فوج نے یہ کہتے ہوئے کیس بند کر دیا تھا کہ جن پانچ فوجی اہلکاروں پر جھڑپ کے الزام لگے ہیں، ان کے خلاف اتنے ثبوت نہیں ہیں کہ الزام طے ہو سکیں۔ آج 20
سال بعد بھی ان کے اہل خانہ انصاف کے انتظار میں دردر بھٹک رہے ہیں۔
وہیں، سال 2010 میں
ماچھل انکاؤنٹر بھی ایسا ہی ایک معاملہ تھا، جہاں تین شہریوں کوہلاک کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں نومبر، 2014 میں ایک فوجی عدالت نے ایک سی او سمیت پانچ لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور انہیں سبھی خدمات سےبرطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد مارچ، 2015 میں بھی ایک فوجی کو ایسی ہی سزا سنائی گئی تھی۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔