کمل ناتھ کی قیادت میں کانگریس ایک نئے جوش کے ساتھ لڑی اور ایک ایسے علاقے میں جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی جڑیں بہت گہری ہیں، فتح حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں : شیوراج سنگھ چوہان: پپّوسے ماما تک کا سفر
انتخابات سے پہلے بی جے پی کے لیڈر اس کویکطرفہ مقابلہ سمجھ رہے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ 200 سیٹیں جیتنے کے دعوے کئے جا رہے تھے۔ سب سے زیادہ بھروسہ تو انہیں’شیوراج فیکٹر’پر تھا۔ انہیں توقع تھی کہ شیوراج چوہان کی مقبولیت کی وجہ سے وہ چوتھی بار پھر سرکار بنا لیں گے۔ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر اس لئے بھی سب کی نگاہ تھی کیوں کہ اس سے آنے والے لوک سبھا الیکشن کے پہلے عوام کے مزاج کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مختلف میڈیا گروپس کے سروے بھی یہ اشارہ کر رہے تھے کہ شیوراج بے حد مقبول ہیں اور اقتدار مخالف لہر مدھیہ پردیش میں نہیں ہے۔ اس وجہ سے بی جے پی لیڈران خوش فہمی میں رہے اور ان کو اتنے کڑے مقابلے کا اندازہ نہیں ہوا۔امیدواروں کے انتخاب میں اتنے ٹکٹ نہیں کاٹے گئے جتنا کہ پہلے امید تھی اور اسی بات کا بی جے پی کونقصان ہوا۔ مالوہ اور نماڑ میں بی جے پی کو نقصان ہوا۔چمبل میں بھی حالات سازگار نہیں رہے۔ آدیواسی سیٹیں کانگریس کی طرف گئیں۔ قرض معاف کرنے کے اعلان سے کانگریس کو فائدہ ہوا۔ بے روزگاری بھی شہری علاقوں میں فیکٹر رہا۔ بی جے پی کو کئی جگہ باغیوں کی وجہ سے بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔13وزیر اپنے حلقوں میں ہارگئے۔ مگر ایک حیرانی کی بات یہ رہی کہ وندھیہ میں اس بار کانگریس اپنی سیٹیں نہیں بچا پائی اور اس وجہ سے جیت بہت بڑی نہیں ہو پائی۔ اجئے سنگھ تک اپنی سیٹ چرہٹ سے ہار گئے۔
یہ بھی پڑھیں : مدھیہ پردیش: مسلم امیدواروں سے پارٹیوں کو پرہیزکیوں ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی سے بےزاری نہیں تھی۔ مگر راجستھان میں حکومت سے جیسا غصہ تھا، ویسا کچھ یہاں کھل کر نظر نہیں آ رہا تھا۔ مدھیہ پردیش وہ صوبہ ہے جہاں بی جے پی اور کانگریس کےووٹ شیئر کا فرق اچھا خاصہ تھا اور اسے پار کرنے کے لئے جس حکومت مخالف لہر کو نظر آنا چاہئے تھا، وہ غائب تھی یا ووٹر کسی کو یہ بھانپنے نہیں دے رہا تھا۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ ایسے کئی ایشوز ہیں جس کی وجہ سے عوام میں ناراضگی تھی۔ کسان ، دلت اور آدیواسی یہ سب طبقات شیوراج سرکار سے خوش نظر نہیں تھے۔ ایک بڑا مسلہ تو بی جے پی کے لئےاعلیٰ ذات کے ووٹرس کی حمایت کا تھا جو کہ شیوراج سرکار کے دلتوں کو ترقی میں ریزرویشن دینے کے فیصلے کی وجہ سے خفا تھے۔ اور پھر Anti-incumbencyبھی تھی۔ دیکھا جائے تو پارٹی کے لئے حالات ٹھیک نہیں تھے۔ مگر جہاں ایک طرف بی جے پی Anti-incumbencyکا سامنا کر رہی تھی، دوسری طرف کانگریس کو بھی کئی مسائل درپیش تھے۔کانگریس کے پاس بھی کوئی بڑا اور بہت کرشمائی چہرہ نہیں تھا کہ جس کی وجہ سےایک بڑاطبقہ یا کاسٹ گروپ ایک دم سے ان کے پالے میں آجاتا۔ پارٹی کے پاس فنڈ کی کمی، چناؤ لڑنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ مسلسل شکست کی وجہ سے ریاست میں کانگریس کی تنظیم کمزور ہو چکی تھی اور حالت یہ تھی کہ خود بڑے لیڈر اس بات کو کہتے تھے کہ یہ’کرو یا مرو’ والی صورت حال ہے اور اگر اس بار بھی نہیں جیت پائے تو شاید آگے پارٹی مقابلے کے لائق نہ بچے اور تب تو زمینی کارکن نہیں ملیں گے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا اشرافیہ تحریک کے بعد پلٹی ہوا سے مدھیہ پردیش میں شیوراج کا دم پھول رہا ہے؟
بہر حال، ایسا نہیں ہوا اور کانگریس جیت گئی۔ قومی سطح پر بھی اب پارٹی کے پاس راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسے صوبے آ گئے ہیں۔یہ ان کے لئے بہت خوش آئند ہے۔ بی جے پی ہاری ہے مگر وہ ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر مدھیہ پردیش میں رہے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کانگریس پارٹی انتخابی منشور میں کئے گئے وعدے پورے کرے۔ کسانوں، کا غصہ دور کرے۔ بےروزگاری یہاں بہت بڑا مسئلہ ہے-سارا فوکس اب کمل ناتھ اور کانگریس پر ہے۔گیند ان کے ہی پالے میں ہے۔ The post مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا قلعہ کیسے ڈھے گیا ؟ appeared first on The Wire - Urdu.