مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا قلعہ کیسے ڈھے گیا ؟

04:45 PM Jan 08, 2019 | شمس الر حمٰن علوی

  کمل ناتھ کی قیادت میں کانگریس  ایک نئے جوش کے ساتھ لڑی اور ایک ایسے علاقے میں جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی جڑیں بہت گہری ہیں، فتح حاصل کی۔

ایکاتم یاترا سے پہلے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے نرمدا سیوا یاترا کا انعقاد کیا تھا۔ اس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہوئے تھے۔  (فائل فوٹو : پی آئی بی)

آخر کار 15سال کے بعد مدھیہ پردیش  میں بی جے پی کا مضبوط قلعہ ڈھے گیا اور اس کے ساتھ ہی شیوراج سنگھ چوہان کا چوتھی بار وزیر اعلیٰ بننے کا خواب بھی  ادھورا رہ گیا۔کانگریس کے لئے یہ جیت بے حد اہم ہے۔ مسلسل  اسمبلی اور پارلیامانی انتخابات میں شکست کی وجہ سے پارٹی   ریاست میں بہت کمزور ہو گئی تھی۔ مگر  کمل ناتھ کی قیادت میں کانگریس  ایک نئے جوش کے ساتھ لڑی اور ایک ایسے علاقے میں جہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی جڑیں بہت گہری ہیں، فتح حاصل کی۔

یہ  کتنی بڑی کامیابی ہے  اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے پاس 165 ایم ایل اے تھے اور کانگریس کے پاس صرف 58۔ بی جے پی کو صوبے میں کانگریس سے 8فیصد  زیادہ ووٹ ملے تھے۔ یہ  فاصلہ  پار کرنا آسان نہیں تھا۔مگر اب کانگریس 114 سیٹیں حاصل کر سرکار بنانے کے قریب ہے اور بی جے پی کو پچھلی بار کے مقابلے 55 سے زیادہ سیٹوں کا نقصان ہوا ہے، توظاہر ہے کہ یہ کانگریس کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے۔

منگل  کی صبح جب کاؤنٹنگ شروع ہوئی تھی تو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اس بار کانٹے کی ٹکر ہے۔ دوسرے صوبوں میں رجحانات جلد ہی پتہ چل گئے تھے مگر مدھیہ پردیش میں گنتی کے دوران ہر راؤنڈ  پر نگاہ رہی۔شام ہوتے ہوتے بی جے پی لیڈروں کی ہمت  ٹوٹ نے لگی تھی مگر ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید کچھ ہو جائے۔لیکن بدھ کی صبح تک سب کچھ صاف ہو گیا، شیوراج نے اعلان کر دیا کہ وہ استعفیٰ دینے جار ہے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں : شیوراج سنگھ چوہان: پپّوسے ماما تک کا سفر


انتخابات سے پہلے  بی جے پی کے لیڈر اس کویکطرفہ مقابلہ سمجھ رہے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ  200 سیٹیں جیتنے کے دعوے کئے جا رہے تھے۔ سب سے زیادہ  بھروسہ  تو انہیں’شیوراج فیکٹر’پر تھا۔ انہیں توقع تھی کہ شیوراج چوہان کی مقبولیت کی وجہ سے وہ  چوتھی بار پھر سرکار بنا لیں گے۔

 اسمبلی انتخابات کے نتائج  پر اس لئے بھی سب کی  نگاہ تھی  کیوں کہ  اس سے آنے والے لوک سبھا الیکشن کے پہلے عوام کے مزاج کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مختلف میڈیا گروپس کے سروے بھی یہ  اشارہ  کر رہے تھے کہ شیوراج بے حد مقبول ہیں اور اقتدار مخالف لہر مدھیہ پردیش میں نہیں ہے۔ اس وجہ سے بی جے پی  لیڈران خوش فہمی میں رہے  اور ان کو  اتنے کڑے مقابلے کا اندازہ نہیں ہوا۔امیدواروں کے انتخاب میں اتنے ٹکٹ نہیں کاٹے گئے جتنا کہ پہلے امید تھی اور  اسی بات کا بی جے پی کونقصان ہوا۔

مالوہ اور نماڑ میں بی جے پی کو نقصان ہوا۔چمبل میں بھی حالات سازگار نہیں رہے۔ آدیواسی سیٹیں  کانگریس کی طرف گئیں۔ قرض معاف کرنے کے  اعلان سے کانگریس کو  فائدہ ہوا۔ بے روزگاری بھی شہری علاقوں میں فیکٹر رہا۔ بی جے پی کو کئی جگہ باغیوں کی وجہ سے بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔13وزیر  اپنے حلقوں میں ہارگئے۔ مگر ایک  حیرانی کی بات یہ رہی کہ  وندھیہ میں اس بار کانگریس اپنی سیٹیں نہیں بچا پائی اور اس وجہ سے جیت بہت بڑی نہیں ہو پائی۔ اجئے سنگھ  تک اپنی سیٹ چرہٹ سے ہار گئے۔

مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی طرف سے لگائے گئے ہورڈنگ۔(فوٹو:دیپک گوسوامی/دی وائر)

 الیکشن کے دوران عوام میں کوئی جوش یا  لہر نہیں نظر آئی تھی۔ اتنے طویل عرصہ تک ایک ہی پارٹی کی حکومت کے باوجود  لوگ کھلے عام شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف نہیں بول رہے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران دوسرے صوبوں سے آئے لیڈران اور صحافیوں کو بھی اس بات پرتعجب  تھا کہ ووٹر کے مزاج کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔


یہ بھی پڑھیں : مدھیہ پردیش: مسلم امیدواروں سے پارٹیوں کو پرہیزکیوں ہے؟


ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی سے بےزاری نہیں تھی۔ مگر راجستھان میں  حکومت سے جیسا غصہ  تھا، ویسا کچھ یہاں  کھل کر نظر  نہیں آ رہا تھا۔ مدھیہ پردیش وہ صوبہ ہے جہاں بی جے پی اور کانگریس کےووٹ شیئر کا فرق اچھا خاصہ تھا اور اسے پار کرنے کے لئے جس حکومت مخالف لہر کو نظر آنا چاہئے تھا، وہ غائب تھی یا ووٹر کسی کو یہ بھانپنے  نہیں دے رہا تھا۔

یہ تو سب کو معلوم تھا کہ ایسے کئی ایشوز  ہیں جس کی وجہ سے عوام میں ناراضگی تھی۔ کسان ،  دلت اور آدیواسی یہ سب طبقات شیوراج سرکار سے خوش نظر نہیں  تھے۔  ایک بڑا مسلہ تو بی جے پی کے لئےاعلیٰ ذات کے ووٹرس کی حمایت کا تھا جو کہ شیوراج سرکار کے دلتوں کو ترقی میں ریزرویشن دینے کے فیصلے کی وجہ سے  خفا تھے۔ اور پھر Anti-incumbencyبھی تھی۔ دیکھا جائے تو  پارٹی کے لئے حالات ٹھیک  نہیں تھے۔

 مگر جہاں ایک طرف بی جے پی Anti-incumbencyکا سامنا کر رہی تھی، دوسری طرف کانگریس کو بھی کئی مسائل درپیش تھے۔کانگریس کے پاس بھی کوئی بڑا اور بہت کرشمائی چہرہ نہیں تھا  کہ جس کی وجہ سےایک  بڑاطبقہ یا  کاسٹ گروپ ایک دم سے ان کے پالے میں آجاتا۔ پارٹی  کے پاس فنڈ کی کمی، چناؤ لڑنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ مسلسل شکست کی وجہ سے ریاست میں  کانگریس کی تنظیم کمزور ہو چکی تھی اور حالت یہ تھی کہ خود بڑے لیڈر اس بات کو کہتے تھے کہ یہ’کرو یا مرو’ والی صورت حال ہے اور اگر اس بار بھی نہیں جیت پائے تو شاید آگے پارٹی مقابلے کے لائق نہ بچے اور  تب تو زمینی کارکن نہیں ملیں گے۔


یہ بھی پڑھیں : کیا اشرافیہ  تحریک کے بعد پلٹی ہوا سے مدھیہ پردیش میں شیوراج کا دم پھول رہا ہے؟


بہر حال، ایسا نہیں ہوا اور کانگریس جیت  گئی۔ قومی سطح پر بھی اب پارٹی کے پاس راجستھان اور چھتیس گڑھ جیسے صوبے آ گئے ہیں۔یہ ان کے لئے بہت خوش آئند ہے۔ بی جے پی ہاری ہے مگر وہ ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر مدھیہ پردیش میں  رہے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ   کانگریس  پارٹی  انتخابی منشور میں کئے  گئے وعدے پورے کرے۔ کسانوں،  کا غصہ دور کرے۔ بےروزگاری یہاں بہت بڑا مسئلہ ہے-سارا فوکس اب کمل ناتھ اور کانگریس پر ہے۔گیند ان کے ہی پالے میں ہے۔

The post مدھیہ پردیش میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا قلعہ کیسے ڈھے گیا ؟ appeared first on The Wire - Urdu.