جے این یوکی سابق اسٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کی پارٹی جموں کشمیر پیپل موومنٹ (جے کے پی ایم)سے اسی سال مارچ میں جڑی تھیں۔ رشید کا کہنا ہے کہ وہ کارکن کے طور پر کام کرنا جاری رکھیں گی۔
نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)کی سابق اسٹوڈنٹ لیڈر اور جموں کشمیر پیپلس موومنٹ (جے کے پی ایم)پارٹی کی لیڈر شہلا رشید نے انتخابی سیاست چھوڑنےکا اعلان کیا ہے۔انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر پر بیان جاری کرکے اس کی جانکاری دی۔شہلا نےاپنے بیان میں کہا بتایا کہ،’گزشتہ دو سے زیادہ مہینوں سے لاکھوں شہریوں کو پابندیوں کے بیچ رہنا پڑ رہا ہے۔ہندوستانی حکومت ابھی بھی کشمیر میں بچوں کا اغوا کر رہی ہے اور لوگ ایمبولنس اور دیگر ایمرجنسی خدمات کو فون کرنے سے بھی محروم ہیں۔ وہیں،مرکزی حکومت جلد ہی کشمیر میں بلاک ڈیولپمنٹ کونسل (بی ڈی سی) انتخاب کرانے جا رہی ہے،جو باہر ی دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش ہے کہ کشمیر میں سب کچھ معمول پر ہے۔’
انہوں نے کہا۔’اس قسم کی سچویشن میں میں آواز اٹھانے اور انتخابی کارروائی پر اپنا رخ واضح کرنے کو اخلاقی ذمہ داری مانتی ہوں۔جموں وکشمیر میں جاری پابندیوں کے بیچ مرکزی حکومت وہاں بی ڈی سی انتخاب کرانے جا رہی ہے،جس وجہ سے مجھے یہ بیان لکھنا پڑ رہا ہے۔شہلا نے کہا،’مرکزی حکومت انتخاب کرا کر دنیا کو دکھانا چاہتی ہے کہ ابھی بھی کشمیر میں جمہوریت ہے لیکن یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کا قتل ہے۔’واضح ہو کہ ا س سال مارچ میں شہلا رشید سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل کے ذریعہ تشکیل دی گئی جموں وکشمیر پیپلس موومنٹ پارٹی میں شامل ہوئی تھیں۔
شہلا کا کہنا ہے کہ،’یہ واضح ہے کہ کشمیر میں کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شامل ہونے کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہے۔’انہوں نے کہا کہ وہ کارکن کے طور پر اپنا کام جاری رکھیں گی لیکن مین اسٹریم کی سیاست سے جڑے رہنے میں انہیں اب بھروسہ نہیں رہا۔
I'd like to make clear my dissociation with the electoral mainstream in Kashmir. Participation in the electoral process in a situation where even the election rhetoric is to be dictated by the centre will only amount to legitimising the actions of the Indian govt in #Kashmir pic.twitter.com/7PMi2aIZdw
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) October 9, 2019
سی پی آئی ایم نے بھی جموں و کشمیر میں بی ڈی سی انتخاب کرانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کی تنقید کرتے ہوئے اسے انصاف کا المیہ کہا ہے۔واضح ہو کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعہ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد سےوادی میں پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔بڑی تعداد میں رہنماؤں اور کارکنوں کو نظر بند کیا گیا ہے،جس میں ریا ست کے دو سابق وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد شہلا رشید پرمبینہ طورپر ہندوستانی فوج کو لے کر سلسلہ وار کیے گئےٹوئٹ کو لے کر سیڈیشن کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔رشید نے 18 اگست 2019 کو کئی ٹوئٹ کر ہندوستانی فوج پر جموں کشمیر میں لوگوں کو اٹھانے،ان کے گھر پر چھاپہ ماری کرنے اور لوگوں کو اذیت دینے کا الزام لگایا تھا۔اس پر رشید نے کہا تھاکہ انہوں نے صرف سچائی اجاگرکی تھی،جسے چھپایا جا رہا ہے اور وہ مسلسل ایسا کرتی رہیں گی۔
شہلا رشید کے مکمل بیان کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔