گزشتہ چار جولائی کو یوپی کے شاملی میں ایک کباڑ خریدنے والے فیروز کی مبینہ مارپیٹ کے بعد موت ہو گئی تھی، جسے کچھ صحافیوں نے لنچنگ بتایا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں غیر ارادتاً قتل کا مقدمہ درج کرنے کے ساتھ ہی دو صحافیوں سمیت پانچ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
نئی دہلی: اترپردیش پولیس نے شاملی ضلع میں ایک کباڑ خریدنے والے مسلمان شخص فیروز کے قتل کے بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے سلسلے میں دو مسلم صحافیوں سمیت پانچ افراد کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کیا ہے، جس کی بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
ملزم بنائے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ یہ ماب لنچنگ کا معاملہ ہے۔ جبکہ پولیس نے فیروز کے مبینہ قتل کے لیے تین افراد (تمام ہندو) کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ تاہم، واقعہ کے چار دن بعد بھی کچھ سوال حل طلب ہیں، جیسے کہ مقدمہ قتل کے لیے نہیں بلکہ بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 105 (غیر ارادتاً قتل) کے تحت درج کیا گیا ہے۔
پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ وہ ان سوشل میڈیا صارفین کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرے گی، جو ان کے بیان کردہ واقعات سےالگ کچھ کہتے ہیں یا لنچنگ کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاہم، یہ غیر معمولی واقعہ ہے کہ معاملے کے اتنے دنوں بعد بھی ضلع کے کسی بھی اعلیٰ افسر نے اس واقعہ پر ویڈیو بیان جاری نہیں کیا ہے، جیسا کہ پولیس کے ضابطہ کے مطابق کیا جانا چاہیے تھا۔
گزشتہ سنیچر (6 جولائی) کو شاملی پولیس نے صحافی ذاکر علی تیاگی، وسیم اکرم تیاگی اور تین دیگر- آصف رانا، سیف الہ آبادی اور احمد رضا خان کے خلاف سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر فیروز کی موت کو ماب لنچنگ کا معاملہ بتانے کے لیے ایف آئی آر درج کی ہے۔ ان کے خلاف بی این ایس کی دفعہ 196 اور 353 کے تحت مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی اور عوامی طور پر ہنگامہ آرائی کو بڑھاوا دینے والے بیانات دینےکے الزام میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس کے ایک دن بعد 7 جولائی کو پولیس نے ‘ہندوستانی میڈیا’ کے ایک نامعلوم صحافی کے خلاف اسی طرح کے الزامات کے تحت ایک اور ایف آئی آر درج کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ‘ہندوستانی میڈیا’ ایک سوشل میڈیا چینل ہے۔
چار جولائی کو ہوئی تھی فیروز کی موت
بتایا گیا ہے کہ فیروز کے ساتھ مار پیٹ کا واقعہ 4 جولائی کو پیش آیا تھا، جس کے بعد اس کی موت ہو گئی۔
فیروز کے بھائی اور مویشیوں کے تاجر افضل کی تحریری شکایت پر تھانہ بھون پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر کے مطابق، فیروز رات 8 بجے کے قریب مقامی لوگوں سے کباڑ کا سامان خریدنےشہر کے آریہ نگر علاقے میں گیا تھا۔ آریہ نگر میں، تین لوگوں – دھرم پال کے بیٹے پنکی، پنکج اور راجندر – اور ان کے ساتھیوں نے فیروز کے ساتھ مار پیٹ کی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ارشد اور اکرام نامی دو افراد اسے گھر لے آئے، جہاں رات گیارہ بجے کے قریب اس کی موت ہوگئی۔
ایف آئی آر میں افضل نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس کا بھائی ‘کبھی کبھی نشہ کرتا تھا۔’
ذرائع نے بتایا کہ مقامی لوگوں کی جانب سے 112 نمبر ڈائل کرنے کے بعد پولیس نے فیروز کو حملے کی جگہ سے بچا یا تھا۔ اگرچہ یہ واقعہ 4 جولائی کی دیر شام میں پیش آیا تھا، لیکن ایک مختصر ایف آئی آر 5 جولائی کی دوپہر کو درج ہوئی۔
افضل نے دی وائر کو بتایا کہ جیسا کہ عام طور پر چھوٹے شہروں میں ہوتا ہے، فیروز بھی اپنے ٹھیلے پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر پرانا یا ٹوٹا- پھوٹا سامان خریدنے نکلا تھا۔
افضل نے بتایا، ‘وہ لوہے کے ٹکڑے، ٹن کی چادریں، پرانے موبائل فون اور کباڑ کے ایسے ہی سامان اٹھاتا تھا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ملزمین نے اس کے مائیک استعمال کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ اس پر بحث شروع ہوگئی اور معاملہ بگڑ گیا۔ انہوں نے اسے کہا کہ کہیں اور جا کر یہ سب کرو اور اسے بری طرح مارا۔’
واقعہ کے وقت افضل اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فیروز کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، تو انھوں نے کہا کہ انھیں اس بات پر مکمل یقین نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘اللہ ہی جانتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔’
معلوم ہو کہ فیروز کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی، جس میں وہ باہر زمین پر بیٹھے ہوئے نظر آرہے ہیں جبکہ مبینہ طور پر کچھ افراد ان کی پٹائی کررہے ہیں، تاہم، اس تصویر سے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان کے آس پاس کون لوگ تھے اور یہ تصویرکس وقت لی گئی تھی۔
افضل کا دعویٰ ہے کہ مقامی لوگوں نے حملے کا ویڈیو بنایا تھا، لیکن کوئی بھی اسے شیئر کرنے کو تیار نہیں تھا۔
جب افضل سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لنچنگ کا معاملہ تھا، تو انہوں نے کہا، ‘یہ تصویر سے واضح ہے۔ اگر میرا بھائی کی موت حملے کے بعد لگی چوٹوں سے نہیں ہوئی، توپھر اس کی جان کیسے گئی؟’
‘جب اسے گھر لایا گیا تو، اس کی حالت بہت خراب تھی اور تھوڑی دیر بعد اس نے دم توڑدیا۔ اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پوسٹ مارٹم میں کوئی چوٹ نہیں ملی ہے۔ صرف اوپر والا ہی جانتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے!’
پولیس کا دعویٰ—لاش پر نہیں تھے چوٹ کے نشان
شاملی کے تھانہ بھون پولیس اسٹیشن کے تھانہ انچارج انچارج (ایس ایچ او) راجیندر پرساد وششٹھ نے دی وائر کو بتایا کہ لاش کا ویزرا فارنسک سائنس لیب کو بھیج دیا گیا ہے اور اس کے نتائج کا انتظار ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پہلی نظر میں جانچ میں موت کی کیاوجہ سامنے آئی ہے تو انہوں نے کہا کہ لاش پر کسی بھی طرح کے چوٹ کے نشان نہیں تھے۔
افضل کا کہنا ہے کہ،’ واقعے کی رات جب فیروز کو گھر لایا گیا تو انہوں نے اسے پانی پلانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ پانی اندر نہیں لے پایا۔ قریب میں ہی ایک ڈاکٹر رہتے ہیں، ہم نے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے پہلے 10-15 منٹ تک انتظار کیا کہ وہ کچھ بہتر ہو جائے لیکن اس سے پہلے ہی اس کی موت ہوگئی۔’
فیروز کی موت کے بعد فوراً سوشل میڈیا پر غم و غصہ پھیل گیا، جہاں کئی لوگوں نے اسے ملک میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا ہیٹ کرائم بتایا۔ تاہم، شاملی پولیس نے ایک نوٹ جاری کر کے ماب لنچنگ کے دعوے کو خارج کر دیا۔
پولیس کے مطابق، 4 جولائی کی رات فیروز مبینہ طور پر نشے کی حالت میں جلال آباد کے آریہ نگر میں راجندر نامی شخص کے گھر میں گھس گیا تھا۔ شاملی پولیس نے کہا، ‘دونوں فریقوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔’ تاہم، پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ شام کے مصروف وقت میں فیروز مبینہ طور پر کسی کے گھر میں گھس کر مارپیٹ کیوں کر رہے تھے۔
پولیس نے بتایا کہ ہاتھا پائی کے بعد فیروز کے اہل خانہ انہیں گھر لے گئے، جہاں بعد میں ان کی موت ہوگئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اگرچہ پولیس نے اعتراف کیا کہ فیروز اور دوسرے فریق کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے چند گھنٹے بعد ہی اس کی موت ہو گئی، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے جسم پر کوئی شدید چوٹ نہیں تھی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، جسے میڈیا یا متاثرہ کے اہل خانہ کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا ہے، پولیس نے کہا کہ اس کے جسم پر ‘کوئی گمبھیر چوٹ’ نہیں تھی۔ پولیس نے کہا، ‘موت کسی چوٹ کی وجہ سے نہیں ہوئی’۔
پولیس نے مزید کہا کہ اس کا ویزرا محفوظ کر لیا گیا ہے۔
شاملی پولیس نے کئی بیان جاری کیے ہیں، جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ واقعہ ہندو برادری کے ملزمین کے ذریعے کسی مسلمان شخص کی لنچنگ کا معاملہ نہیں ہے۔
واقعہ کو ماب لنچنگ بتانے والے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف بار بار کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے پولیس نے الزام لگایا ہے کہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ‘گمراہ کن’ ٹوئٹ کے ذریعے ‘فرقہ وارانہ نفرت’ پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس نے کہا کہ ‘کسی زمینی حقائق پر غور کیے بغیر فرقہ وارانہ منافرت بھڑکانے کی نیت سے پوسٹ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔’
اس دوران 5 جولائی کو مقامی لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے ملزمین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
تھانہ بھون سے بی جے پی کی اتحادی پارٹی راشٹریہ لوک دل کے ایم ایل اے اشرف علی خان نے 5 جولائی کو فیروز کی ‘وحشیانہ پٹائی’ کے بعد ‘قتل’ کو ‘سنگین جرم’ قرار دیا۔ خان نے پولیس اور انتظامیہ سے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور انہیں سزا دینے کی اپیل کی۔
تاہم، دو دن بعد خان نے اپنا لہجہ بدلا اور کہا کہ ‘اس واقعے کو ماب لنچنگ کے طور پر دیکھنا درست نہیں ہے۔’
خان نے کہا، ‘ہمارے شہر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول ہے۔ میں انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ واقعہ سے متعلق تمام پہلوؤں پر نظر رکھتے ہوئے مناسب کارروائی کرے۔ میں شہر کے لوگوں اور اہل وطن سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا سائٹس پر اشتعال انگیز اور گمراہ کن پوسٹ ڈالنے سے گریز کریں۔’
میڈیا اداروں نے ایف آئی آر کی مخالفت کی
دریں اثنا، سوموار کو 90 ڈیجیٹل میڈیا اداروں اور آزاد صحافیوں کی تنظیم ڈی جی پب نے مطالبہ کیا کہ اتر پردیش پولیس اس معاملے میں نامزد صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کو فوراً رد کرے۔
Uttar Pradesh police must rescind the FIR against five people including 2 journalists who posted about the death of a Muslim man in Shamli. pic.twitter.com/JpAXoPhEd3
— DIGIPUB News India Foundation (@DigipubIndia) July 8, 2024
ڈی جی پب نے ایک بیان میں کہا، ‘عوامی مفاد میں عوامی معلومات کا اشتراک کرنے والے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا فوجداری قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور غلط استعمال اور آزادی صحافت پر حملہ ہے، جس کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں۔’
We unequivocally demand the withdrawal of FIR against the two journalists.@iwpcdelhi
— Press Club of India (@PCITweets) July 8, 2024
وہیں، پریس کلب آف انڈیا اور انڈین ویمن پریس کور نے ایک مشترکہ بیان جاری کر کے صحافیوں کے خلاف درج معاملے کو رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ عوامی طور پر پر دستیاب معلومات کو عوام تک پہنچانا ہی صحافت ہے۔ اس طرح صحافیوں کے خلاف بی این ایس کا استعمال آئین کے آرٹیکل 19 (اے) کی صریح خلاف ورزی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )