میں یہ ایوارڈ واپس لوٹا کر اپنی قوم ، سیکولر عوام اور جمہوریت کے حق کے لیے اٹھنےوالی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملا رہی ہوں ۔ ہم سب کو اس احتجاج میں شامل ہو کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
شیریں دلوی، فوٹو بہ شکریہ، یوٹیوب گریب
ممبئی میں مقیم سینئر اردو صحافی ،روزنامہ اودھ نامہ ممبئی ایڈیشن کی سابق مدیراورقلمکار شیریں دلوی نے شہریت ترمیم بل پاس ہونے کے احتجاج میں اپنامہاراشٹراسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ولوٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کو یہ ایوارڈ 2011 میں ان کی ادبی خدمات کے لیے دیا گیا تھا۔ادارہ
شہریت ترمیم بل قانون کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، عیسائی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد ، جو غیر قانونی طریقے سے ہندستان میں رہتے ہیں ،انہیں ہندستانی شہریت دینے کی تجویزپیش کی گئی ہے، لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جبکہ مسلمانوں کا بھی اتنا ہی حق ہے اس ملک میں رہتے ہوئے شہریت حاصل کرنے کا ۔ ملک کے آئین میں بنیادی حقوق کی دفعہ 14کے تحت مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر دو مذاہب کے درمیان فرق نہیں برتا جا سکتا ، بل پاس کرنے سے قبل اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا ۔اس بل کے منظور کیے جانے سے ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم پر سوالیہ نشان کھڑا ہو تا ہے ۔
اس بل میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کا کوئی ہندو، بدھسٹ، جین، سکھ، پارسی اور عیسائی اگر گزشتہ چھ برسوں سے ہندستان میں رہائش پذیر ہے، تو وہ ہندستانی شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہے، مگر یہی سہولت مسلمان تارکین وطن کے لیے نہیں ہے۔اس بل کی ایک اہم بات یہ ہے کہ چھ مذاہب کے لوگوں کو ملک بدر کرنے کی شق بھی ختم کر نے کی تجویز ہے، مگر اس میں بھی مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
شہریت ترمیم بل کو جب سے پیش کیا گیا ہے ، ملک کے ایک ہی فرقے یعنی مسلمانوں میں بے چینی پائی جا رہی تھی اور اب اس بے چینی میں اضافہ ہونےکے ساتھ ساتھ لوگ اپنا احتجاج بھی درج کروا رہے ہیں ۔
خبروں کے مطابق جیسا کہ ہم پڑھتے اورسنتے آئے ہیں اس بل کے پاس ہونے کے بعد سبھی مسلم مہاجرین کو غیر قانونی مہاجر قرار دیا جائے گا۔ موجودہ قانون کے مطابق غیر قانونی طریقہ سے آئے لوگوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا یا حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ایسی اطلاعات ملک کے مسلمانوں کو بے چین کر رہی ہیں۔
غیر مسلم مہاجرین کو ہندستان کی شہریت حاصل کرنے کے لیے اس ملک میں 11 سال کا عرصہ گزارنا لازم تھا اب غیر مسلم مہاجر چھ سال کا وقت ہندستان میں گزارنے کے بعد یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیےدرخواست د ے سکتا ہے ۔ حکومت کا یہ بل ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا کام کرے گا جو کہ برابری کے قانون کے خلاف ہے۔
شمال مشرق کی ریاستوں میں اس بل کی سخت مخالفت کی گئی ہے ،وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش سے زیادہ تر ہندو آکر آسام، اروناچل، منی پور جیسی ریاستوں میں بسے ہیں جس سے ان ریاستوں کا سماجی ماحول بگڑ رہا ہے۔ ان میں مختلف اطلاعا ت کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن بھی ہیں۔ اس وقت ان ریاستوں میں تمام شہریوں کے کاغذات کی جانچ کا عمل چل رہا ہے۔ ہر شہری کو اپنی شہریت کے ثبوت میں کئی طرح کے دستاویزات پیش کرنے ہیں۔ یہی صورت حال یہاں بھی ہو سکتی ہے ۔
مسلمان اس ملک کی اقلیت ہو کر بھی دوسری بڑی اکثریت ہیں ، مگر اب جو صورت حال ہے اس سے یہ ہوگا کہ پڑوسی ممالک کے ہندو مہاجرین کو اس ملک کی شہریت دی جائے گی اور مسلمانوں کے لیے یہ دروازہ بند ہے اور جو غیر قانونی مہاجر مسلمان ہیں ، انہیں دیس نکالا دیا جائے گا ، اس طرح اس ملک میں آبادی کا تناسب بھی بگڑ سکتا ہے اور مسلمان اس ملک کی اقلیت ہو کر رہ جائیں گے ۔ آج اس ملک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کے باجود وہ کسی بھی شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر نظر آتے ہیں ، ہندستانی سیاست میں بھی مسلمانوں کا شمار نہیں کے برابر ہے ۔ اس طرح اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی اور نا برابری کا معاملہ بھی ہے ۔ اس پر ملک کے کونے کونے سے احتجاج درج کیا جا رہا ہے اور احتجاج درج کیا جانا بھی چاہیے ۔
شہریت ترمیم بل کو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے ، اس میں مسلمانوں کو سراسر نظر انداز کیا گیا ہے ۔ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کا حامل ہے ، یہاں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں برتی جا سکتی ، مگر اس بل سے ایک ہی فرقے کے ساتھ فرق کیا جا رہا ہے ۔ سیکولر مزاج کے لوگ اس ملک کی بہتری اور گنگا جمنی تہذیب کی خاطر ضرور اس پر غور و خوض کریں گے ۔
مجھے اس خبر سے بے حد صدمہ پہنچا ہے کہ بی جے پی حکومت نے شہریت ترمیم بل پاس کیا ہے ، یہ ملک کے عوام کے جمہوری حق پر حملہ ہے ، میں اس غیر انسانی قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے ، ریاستی حکومت کی ساہتیہ اکادمی کی جانب سے دیے جانے والے ‘علمی ادبی خصوصی ایوارڈ ‘ کو واپس لوٹا رہی ہوں ۔ یہ بل ہماری قوم کے ساتھ نا انصافی اور نا برابری کا حامل ہے ۔ میں یہ ایوارڈ واپس لوٹا کر اپنی قوم ، سیکولر عوام اور جمہوریت کے حق کے لیے اٹھنےوالی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملا رہی ہوں ۔ ہم سب کو اس احتجاج میں شامل ہو کر ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کرنی چاہیے ۔