آل انڈیا مینوفیکچررس ایسوسی ایشن کی جانب سے کرایا گیایہ سروے ایم ایس ایم ای،سیلف ایمپلائمنٹ، کارپوریٹ سی ای او اور اسٹاف سے ملےکل 46525 جوابات پر مشتمل ہے۔
نئی دہلی: ملک کی ایک تہائی یعنی کہ 33 فیصدی سے زیادہ سیلف ایمپلائمنٹ اور ایم ایس ایم ای لاک ڈاؤن میں دی گئی ڈھیل میں اپنا کاروبار شروع کرنے کےاہل نہیں ہیں اور تقریباً بند ہونے کے حالت پر پہنچ گئے ہیں۔انڈین ایکسپریس کے مطابق نو صنعتی اکائیوں کے ساتھ مل کر آل انڈیا مینوفیکچررس ایسوسی ایشن (اےآئی ایم او)کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے میں یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔
اےآئی ایم او کا سروے ایم ایس ایم ای، سیلف ایمپلائمنٹ، کارپوریٹ سی ای او اوراسٹاف سے ملے کل 46525 جوابات پر مشتمل ہے۔ یہ سروے 24 مئی سے 30 مئی کے بیچ آن لائن پلیٹ فارم پر منعقد کیا گیا تھا۔اس کے مطابق 35 فیصد ایم ایس ایم ای اور 37 فیصد سیلف ایمپلائمنٹ جواب دہندوں نے کہا کہ ان کا بزنس پھر سے کھڑا نہیں ہو پائےگا۔ جبکہ 32 فیصد ایم ایس ایم ای نے کہا ہے کہ انہیں ری کوری کرنے میں چھ مہینے لگیں گے۔ محض 12 فیصدی نے تین مہینے سے کم وقت میں ری کوری کر پانے کی امید جتائی۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کارپوریٹ سی ای او کاروبار شروع کرنے کے لے پرامید ہیں اور انہوں نے تین مہینے میں ری کوری کی امید جتائی ہے۔ہندوستان میں دنیا کا سب سے سخت لاک ڈاؤن میں سے ایک نافذ رہا، جہاں تیسرے مرحلے کے بعد معاشی سرگرمیوں کو پھر سے شروع کرنے کے لیے دھیرے دھیرے چھوٹ دی گئی تھی۔
مہاراشٹر، گجرات، تمل ناڈو اور دہلی سمیت دوسری ریاستوں میں بڑھتے کووڈ 19 معاملوں کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔قومی شماریاتی کمیشن کے دفتر(این ایس سی ) کی جانب سے پچھلے ہفتے جاری جی ڈی پی اعدادوشمار کے مطابق ملک کی ترقیاتی شرح2019-20 میں 11 سال کی سب سے نچلی سطح 4.2 فیصد پر آ گئی۔ آر بی آئی نے حال ہی میں کہا ہے کہ 2020-21 میں ترقیاتی شرح منفی زمرے میں ہو سکتی ہے۔
اےآئی ایم او کے سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صرف تین فیصدی ایم ایس ایم ای، 6 فیصدی کارپوریٹ اور 11 فیصدی سیلف ایمپلائمنٹ جواب دہندوں نے کہا ہے کہ وہ متاثر نہیں ہوں گے اور اچھا مظاہرہ کرتے رہیں گے، بنیادی طور پریہ لاک ڈاؤن کے دوران ضروری اشیا کی فراہمی میں لگے ہوئے تھے۔
کل ملاکر دیکھیں تو اس سروے کے مطابق 32 فیصدی لوگوں نے کہا ہے کہ ان کے کاروبارکی ری کوری نہیں ہو پائےگی یعنی کہ وہ کام شروع نہیں کر سکتے ہیں۔ وہیں 29 فیصدی نے کہا ہے کہ انہیں نئے سرے سے سارا کام شروع کرنے میں چھہ مہینے کاوقت لگےگا۔بتا دیں کہ دیش میں ایم ایس ایم ای کی تعداد میں چھ کروڑ سے زیادہ ہے اور اس میں ایک اندازے کے مطابق11 کروڑ لوگ کام کرتے ہیں۔اندرونی ذخیرہ کم ہونے اور مانگ میں کمی کے وجہ اس وقت یہ تناؤمیں ہیں۔
ملک کے کل مینوفیکچرنگ کا لگ بھگ 45فیصد، 40 فیصد ایکسپورٹ،جی ڈی پی کا لگ بھگ 30 فیصدی وغیرہ ایم ایس ایم ای سے آتا ہے۔