سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں حال ہی میں 4 انفارمیشن کمشنر وں کی تقرری کی گئی ہےجوسابق نوکرشاہ ہیں۔ حالانکہ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 12 (5) بتاتی ہے کہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمات، ایڈمنسٹریشن، صحافت یا حکومت کے شعبے سے کی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا انفارمیشن کمیشن ریٹائرڈ نوکرشاہوں کی آرام گاہ بنتا جا رہا ہے؟
شری دھر آچاریہ لونے حال ہی میں صدر کو خط لکھکر مانگ کی تھی کہ نوکرشاہی کے باہر سے بھی لوگوں کو انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کی جانی چاہیے تاکہ ادارے میں تنوع بنا رہے۔آچاریہ لونے دی وائر سے کہا،یہ بےحد تشویشناک ہے کہ زیادہ تر کمشنر سابق آئی اے ایس افسر رہے ہیں، جو حکومت میں کام کر چکے ہیں۔ اگر قانون کے مطابق دیگر شعبوں سے لوگ آتے ہیں تو کمیشن کی خودمختاری بھی برقرار رہےگی، ذاتی آزادی بھی رہےگی۔ کمیشن میں تنوع ہوگااور فیصلے میں بھی اس کی جھلک دکھےگی۔ ‘ حال ہی میں ہوئے چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے تناظر میں انہوں نے کہا، تمام لوگوں کو نوکرشاہی سے کیوں چنا گیا؟ کیا سرچ کمیٹی قانون، سماجی خدمات، میڈیا، صحافت، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے میں ایک بھی ایسے آدمی کو بھی نہیں کھوج سکی جو اس عہدے کے لئے صحیح ہو۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے لئے ‘ایڈمنسٹریشن’ آٹھ میں سے ایک شعبہ ہے۔ ‘ انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کے لئے 27 جولائی 2018 کو اشتہار جاری کئے گئے تھے۔ اس کے بعد درخواست کرنے والوں میں سے مناسب امیدواروں کی تقرری کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے ایک سرچ کمیٹی بنائی گئی تھی۔سرچ کمیٹی کے ممبر کابینہ سکریٹری پی کے سنہا، وزیر اعظم کے اڈیشنل چیف سکریٹری پی کے مشرا، ڈی او پی ٹی کے سکریٹری سی چندرمولی،ڈی آئی پی پی کے سکریٹری رمیش ابھشیک، وزارت اطلاعات و نشریات کے سکریٹری امت کھرے اور دہلی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اکانومک گروتھ کے ندیش منوج پانڈا شامل تھے۔ سرچ کمیٹی کے صدر کابینہ سکریٹری پی کے سنہا تھے۔ انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر لوگوں کو شارٹ لسٹ کرنے کے لئے سرچ کمیٹی کی دو میٹنگ، 28 ستمبر 2018 اور 24 نومبر 2018 کو ہوئی تھی۔24 نومبر کو ہوئے آخری اجلاس میں سرچ کمیٹی نے کل 14 لوگوں کے نام کو شارٹ لسٹ کیا تھا جس میں سے 13 لوگ سابق نوکرشاہ (سابق بیوروکریٹ یا سرکاری بابو) تھے اور صرف ایک الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائر جج تھے۔ اتناہی نہیں، کمیٹی نے جن 14 لوگوں کے نام کی سفارش کی تھی اس میں سے دو لوگ-سریش چندرا اور امیسنگھ لوئی کھم-کے نام درخواست گزاروں میں شامل نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سرچ کمیٹی نے ان ناموں کی سفارش اپنی طرف سے کی ہے۔حالانکہ 27 اگست، 2018 کو سپریم کورٹ میں دائر ایک حلف نامہ میں ڈی او پی ٹی نے خود کہا تھا کہ جن لوگوں نے عہدے کے لئے درخواست دی ہے، ان میں سے ہی سرچ کمیٹی کے ذریعے لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا جائےگا۔ آر ٹی آئی کارکنان نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں ہوئی تقرری کو ایک’من مانا عمل ‘قرار دیا ہے۔ ایک جنوری، 2019 کو انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری ہونے والوں میں سابق آئی ایف ایس افسر یشوردھن کمار سنہا، سابق آئی آر ایس افسر ونجا این۔ سرنا، سابق آئی اے ایس افسر نیرج کمار گپتا اور سابق قانون سکریٹری سریش چندرا شامل ہیں۔ نو منتخب انفارمیشن کمشنر سریش چندرا پر الزام ہے کہ انہوں نے درخواست نہیں دی ہے، اس کے باوجود ان کی تقرری کی گئی ہے۔ انجلی بھاردواج نے بتایا کہ وہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں تقرری کے لئے اپنائے گئے من مانے عمل اور رازداری کو لےکر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے والی ہیں۔ بھاردواج نے کہا، شفافیت کی مانگ صرف انفارمیشن کمیشن تک ہی محدود نہیں ہے۔ حکومت سی بی آئی، لوک پال، سی وی سی جیسے بڑے انسداد بدعنوانی سے متعلق اداروں میں خفیہ طریقے سے تقرری کر رہی ہے۔ اگر امید وار کے نام پہلے ہی عام کئے گئے ہوتے تو یہ سوال اٹھتا کہ آخر سریش چندرا کی تقرری کیسے کی گئی، جب انہوں نے درخواست ہی نہیں کی تھی ۔ لوک پال اور سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کو لےکر بھی سنگین رازداری برتی جا رہی ہے۔ اپنے چہیتوں کو ان عہدوں پر بٹھانے کی حکومت کی یہ کوشش ہے۔ ‘ The post کیوں مودی حکومت انفارمیشن کمشنر کے عہدے کے لئے نوکرشاہوں کو ترجیح دے رہی ہے؟ appeared first on The Wire - Urdu.