وکیل ورندا گروور نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2019 میں سیڈیشن کے 30 معاملوں میں فیصلہ آیا، جہاں 29 میں ملزم بری ہوئے اور محض ایک میں سزا ہوئی۔ گروور نے بتایا کہ 2016 سے 2019 کے بیچ ایسے معاملوں کی تعداد 160فیصد تک بڑھی ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ملک میں2016 سے 2019 کے بیچ سیڈیشن کے معاملوں میں160فیصد کااضافہ ہوا جبکہ 2019 میں ایسے معاملوں میں سزا سنانے کی شرح صرف 3.3 فیصد رہی۔ یہ جانکاری ایک وکیل کے سرکاری اعدادوشمار کے تجزیے میں سامنے آئی ہے۔
ساتھ ہی کی کئی وکیلوں نے سپریم کورٹ کی جانب سےجمعرات کو سیڈیشن قانون کو لےکر کیے گئے
تبصرے کے ساتھ بھی اتفاق کیا ہے۔
وکیل ورندا گروور نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آربی)کےاعدادوشمار کا حوالہ دیا ہے۔ یہ اعدادوشمارچیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی
سپریم کورٹ کی بنچ کی اس تبصرے کے مد نظر اہم ہے کہ سیڈیشن کو لےکر نوآبادیاتی دور کے قانون کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا ہے اور ایسے معاملوں میں سزا سنانے کی شرح بہت کم ہے۔
گروور نے این سی آربی کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیڈیشن کے معاملوں میں لگاتار اضافہ ہوا ہے اور 2016 سے 2019 کے بیچ ایسے معاملوں کی تعداد160 فیصد بڑھ گئی ہے۔ایسے معاملوں میں سزا سنائے جانے کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ 2019 میں سیڈیشن کے 30 معاملوں میں فیصلہ ہوا جن میں 29 میں ملزم بری ہو گئے اور ایک میں سزا ہوئی اور اس کی شرح3.3 فیصدی رہی۔
گروور سے اتفاق کرتے ہوئے سینئر وکیل گیتا لوتھرا نے کہا کہ ایسے معاملوں میں سزا سنانے کی شرح کم ہے کیونکہ زیادہ تر معاملوں میں قانون لاگو کرنے کے بنیادی اصول اور عوامل موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ استغاثہ ثبوت پیش نہیں کرتا ہو یا چارج شیٹ بھی داخل نہیں کرتا کیونکہ ان کا ارادہ صرف کسی کو جیل میں رکھنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکار کسی کو لازمی طور پرسز دینا چاہتی ہے۔ یہ سبق دکھانے اور اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے ہے۔
ایم زیڈایم لیگل فرم میں سینئر پارٹنر اور وکیل مرنال بھارتی، جو سیڈیشن کے معاملوں کا سامنا کر رہے میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، نے کہا کہ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سرکار کی جانب سےمعاملے تھوپے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سزا سنانے کی شرح کے کافی کم ہونے کی وجہ صاف ہے کیونکہ جرم کو ثابت کرنے کے لیے شاید ہی کچھ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ، پولیس ایسے معاملوں کی ٹھیک سے جانچ نہیں کرتی ہے۔
خبررساں ایجنسی
پی ٹی آئی کے مطابق، گروور نے سیڈیشن کےمعاملوں میں اضافہ کے لیے اقتدار کی آمریت اور مطلق العنانیت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ اظہار رائے کی آزادی کے مشق کے ذریعےشہریوں کی جانب سے اٹھائی گئی کسی بھی آواز، سوال یا اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے سرکارتیزی سے اس کا سہارا لے رہی ہے۔
انہوں نے اسے نوآبادیاتی اقتدارکی علامت بتاتے ہوئے کہا کہ ریاست شہریوں کو چپ کرانے، عوام کو ڈرانے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے لیےسیڈیشن کے معاملے درج کر رہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘سیڈیشن کے معاملے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر درج کیے جاتے ہیں جو عدالتی جانچ پر آتے ہیں، اکثر لوگوں کو زیر سماعت قیدیوں کےطور پر طویل عرصے تک جیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’
حالانکہ لوتھرا نے کہا کہ بھلے ہی قانون کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن زیادہ سےزیادہ لوگ بیدار ہو رہے ہیں کہ اسے ختم کر دیا جانا چاہیے۔
لوتھرا نے جس قانون کے وجود پر پچھلے 75 سالوں سے سوال کھڑے کیے جا رہے تھے، اس پر کہا، ‘میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے یا زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن مجھےیقینی طور پر لگتا ہے کہ لوگ زیادہ بیدار ہو رہے ہیں۔’
بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے سیڈیشن سے متعلق‘نوآبادیاتی دور’کے تعزیری قانون کے غلط استعمال پر جمعرات کو
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مرکز سے پوچھا کہ وہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے مہاتما گاندھی جیسے لوگوں کو چپ کرنے کے لیے انگریزوں کے ذریعے استعمال کیے گئے اہتمام کورد کیوں نہیں کر رہا ہے۔ جبکہ دوسرے پرانے قوانین کوختم کر رہا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)