نئے پارلیامنٹ ہاؤس کے پہلے اجلاس کے موقع پر تمام ممبران کے درمیان ہندوستانی آئین کی کاپیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس ایم پی ادھیر رنجن چودھری نے کہا ہے کہ آئین کی مذکورہ کاپی کی تمہید میں ‘سوشلسٹ’ اور ‘سیکولر’ الفاظ نہیں ہیں۔
(تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons)
نئی دہلی: پارلیامنٹ کی نئی عمارت سے کام کاج شروع ہوتے ہی تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے بدھ کو کہا کہ نئی پارلیامنٹ کے پہلےاجلاس کے موقع پر ممبران کے درمیان تقسیم کی گئی آئین کی کاپی کی تمہید میں ‘سوشلسٹ اور سیکولر’ الفاظ نہیں ہیں۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے چودھری نے کہا، ‘ہمیں دی گئی آئین کی کاپی میں سوشلسٹ اور سیکولر الفاظ نہیں تھے۔ وہ (حکومت) کہہ سکتے ہیں کہ یہ پرانا ایڈیشن ہے۔ لیکن انہیں ترمیم شدہ ایڈیشن بھی شامل کرنا چاہیے تھا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں اصل نسخہ دیاہے۔ میرے خیال میں یہ جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔
اے این آئی کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘ہم جانتے ہیں کہ یہ الفاظ 1976 میں ترمیم کے بعد شامل کیے گئے تھے، لیکن اگر آج کوئی ہمیں آئین کا نسخہ دیتا ہے اور یہ الفاظ اس میں نہیں ہیں، تو یہ تشویش کی بات ہے… ان کے ارادے مشکوک ہیں۔.. یہ بہت چالاکی سے کیا گیا ہے۔ یہ میرے لیےتشویش کی بات ہے۔ میں نے اس مسئلے کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن مجھے موقع نہیں ملا…‘
تاہم مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے اس معاملے کو زیادہ توجہ نہ دیتے ہوئے کہا کہ ارکان کو اصل نسخہ دیاگیا ہوگا۔ انہوں نے کہا، ‘جب آئین کو اپنایا گیا تھا،تب یہ (تمہید) اسی طرح تھا۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ ان کاپیوں میں آئین کی تمہید کا ‘اصل ورژن’ موجود ہے۔ جب آئین وجود میں آیا تو اس میں ’سوشلسٹ، سیکولر‘الفاظ نہیں تھے۔ یہ الفاظ 1976 میں آئین کی 42ویں ترمیم میں شامل کیے گئے تھے۔
اس سے قبل پارلیامنٹ کے خصوصی اجلاس کے پہلے دن 18 ستمبر کو لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے جاری کردہ بلیٹن میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ارکان کو آئین کی ایک کاپی اور اصل آئین کی خوشخط کاپی دی جائے گی۔
بلیٹن میں کہا گیاتھا، ‘پارلیامنٹ ہاؤس (نئی عمارت) کی پہلی تاریخی بیٹھک کویادگار بنانے کے لیے آئین ہند کی ایک کاپی، ہندوستانی آئین کے اصل نسخہ کی خوشخط کاپی، نیوز لیٹر’گورو’ اور یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکہ پارلیامنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقع پر جاری کیے جائیں گے، جو معزز اراکین کو دیے جائیں گے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، سی پی آئی-ایم کے بنائے وشوم نے بھی اراکین پارلیامنٹ کو ملی کاپی میں ‘سیکولر، سوشلسٹ’ دونوں الفاظ کے نہ ہونے کو ‘جرم’ قرار دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آئین کی تمہید میں بنیادی طور پر ہندوستان کو’خودمختار، جمہوریہ’ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اندرا گاندھی کی قیادت والی کانگریس حکومت کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کے دوران 42ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں،جس میں ‘خودمختار’ اور ‘جمہوریہ’ کے درمیان ‘سوشلسٹ’ اور ‘سیکولر’ کے الفاظ کا اضافہ اور ‘قوم کی یکجہتی’ کو’قوم کی یکجہتی اور سالمیت’ سے بدلنا شامل تھا۔
بہت سی تبدیلیاں 1978 میں الٹ دی گئیں لیکن ترمیم شدہ تمہید برقرار رہی۔ 1994 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘سیکولرازم’ بنیادی ڈھانچے کے اصول کا حصہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ کچھ بنیادی خصوصیات کو مٹایا نہیں جا سکتا۔
اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک بار ترمیم کا نوٹیفکیشن ہوجانے کے بعد پرانے آئین کی چھپائی روک دی جانی چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ آئین میں کوئی بھی تبدیلی چھیڑ چھاڑ کے مترادف ہوگی۔