آئی آئی ٹی، بی ایچ یو جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علم نجوم اور بھوت ودیا پڑھانے پر سائنسدانوں کا اظہار تشویش

آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نصاب تیار کرنے والے ہندوستانی نالج سسٹم کے نام پر اپنی تنگ نظری کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس طرح کے نصاب کا اکثر مواد انٹرنیٹ سائٹس پرملنے والے مشتبہ مواد پر مبنی ہوتا ہے۔

آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نصاب تیار کرنے والے ہندوستانی نالج سسٹم  کے نام پر اپنی تنگ نظری کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس طرح کے نصاب کا اکثر مواد انٹرنیٹ سائٹس پرملنے والے مشتبہ مواد پر مبنی ہوتا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: آئی آئی ٹی منڈی ویب سائٹ)

(تصویر بہ شکریہ: آئی آئی ٹی منڈی ویب سائٹ)

نئی دہلی: سائنس کے اساتذہ اور سائنسدانوں کے ایک طبقہ  نے ہندوستانی نالج سسٹم کی آڑ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علم نجوم اور تناسخ سمیت ‘سیڈو سائنسی’ کے مضامین متعارف کرانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، آل انڈیا پیپلز سائنس نیٹ ورک (اے آئی پی ایس این) کے اراکین نے ایک آن لائن پبلک پٹیشن میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ سے اپیل کی  ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ایسے کورسز کے  خلاف احتجاج  کریں۔

اے آئی پی ایس این نے کہا ہے کہ کچھ اداروں میں ہندوستانی نالج سسٹم کا تعارف ان لوگوں کے لیے ایک موقع بن گیا ہے جو ہندوستانی سائنس اور ریاضی کی تاریخ کے بارے میں اتھلی سمجھ یا غیر سائنسی نظریات رکھتے ہیں۔

اے آئی پی ایس این نے کورسز کی مثالیں بھی دی ہیں ،  جیسے کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی)، منڈی میں تناسخ کے بارے میں پڑھایا جارہا ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو ) میں علم نجوم اور بھوت ودیا جیسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔

اے آئی پی ایس این نے آئی آئی ٹی کھڑگپور کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھایا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی تہذیب آخری برفانی دور سے پہلے کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہندوستانی تہذیب 10000 سال سے زیادہ پرانی ہے۔

اے آئی پی ایس این نے کہا کہ ان کورسز کی تیاری کرنے والے ہندوستان کی تکثیری علمی روایات سے بے خبر معلوم ہوتے  ہیں۔ وہ ہندوستانی نالج سسٹم کے نام پر اپنی اتھلی سمجھ  کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس طرح کے کورسز کا زیادہ تر مواد مشکوک انٹرنیٹ سائٹس پر پائے جانے والے مواد پر مبنی ہوتا ہے، جو سنسکرت کی علمی روایات کی آدھی  ادھوری جانکاری کے ساتھ مبالغہ آمیز دعوے کرتے ہیں۔

اے آئی پی ایس این نے عرضی میں کہا ہے، ‘ہم تمام اعلی تعلیمی اداروں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی نالج سسٹم پر اپنے نصاب کی تیاری میں صرف اچھی طرح سے تحقیق شدہ سائنسی ذرائع کا استعمال کریں اور شیڈوسائنسی دعووں کو ہٹا دیں۔ ہندوستانی نالج سسٹم  میں موجود تنوع کے لیے ایماندار رہنے کی ضرورت ہے۔‘

اے آئی پی ایس این نے اسکول کی نصابی کتابوں میں ہندوستانی نالج سسٹم کے ‘ناقص اور متعصب’ تعارف کو بھی اجاگر کیا ہے۔ مثال کے طور پر،این سی ای آر ٹی کی  سماجیات کی نصابی کتاب سنسکرت پر مبنی روایات کو دیگر روایات سے برتر قرار دیتی ہے۔

سائنس کے اساتذہ نے بھی آیورویدک علاج  کی مبالغہ آرائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ درحقیقت، این سی ای آر ٹی کلاس الیون کی کتاب میں آیوروید سے متعلق ایک باب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ طبی نظام 1500 سال سے زیادہ پرانا ہے۔

اے آئی پی ایس این نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح کا ناقص نصاب ہندوستانی ریاضی کی قدیمی شراکت کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔