سپریم کورٹ نے کہا کہ ملک کی آزادی کو 70سال سے زیادہ گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ذات پات کو لے کر امتیازی سلوک برقرار ہے۔ ہر مہینے غلاظت صاف کرنےکے کام میں لگے چار سے پانچ لوگ کی موت ہو رہی ہے۔
نئی دہلی: ملک میں میلا ڈھونے کے کام میں لگے لوگ کی موت اور ان کو حفاظتی آلات دستیاب نہیں کرائے جانے پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو پھٹکار لگائی۔ عدالت نے کہا کہ ملک کی آزادی کو 70سال سے زیادہ بیت چکے ہیں لیکن آج بھی ذات پات کو لے کر امتیازی سلوک برقرار ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے کہا، ‘دنیا کے کسی ملک میں لوگوں کو مرنے کے لئے گیس چیمبرس میں نہیں بھیجا جاتا ہے۔ ہر مہینے میلا ڈھونے کے کام میں لگے چار سے پانچ لوگ کی موت ہو رہی ہے۔’
جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی بنچ مرکزی حکومت کی ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ اس عرضی میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے اس کے گزشتہ سال کے فیصلے کے تجزیہ کا مطالبہ کیا تھا جس میں ایس سی –ایس ٹی ایکٹ کے تحت گرفتاری کے اہتماموں کو تقریباً ختم کر دیا گیا تھا۔میلا ڈھونے کے کام میں لگے لوگوں کو یکساں سہولیات دستیاب نہیں کرانے پر عدالت نے حکومت کو پھٹکار لگائی۔ عدالت نے کہا، ‘سبھی انسان برابر ہیں لیکن انتظامیہ کے ذریعے سبھی کو یکساں سہولیات نہیں فراہم کی جاتی ہیں۔’
جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی ایک بنچ نے مرکزی حکومت کی طرف سے موجود اٹارنی جنرل کےکے وینوگوپال سے پوچھا کہ میلا ڈھونے کے کام میں لگے اور سیویج اور مین ہول کی صفائی میں لگے لوگوں کو حفاظت کے لئے مناسب آلات جیسے نقاب اور آکسیجن سلینڈر کیوں نہیں دئے جاتے ہیں۔جسٹس مشرا نے کہا، ‘میں آپ لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آئین کے ذریعے ملک میں چھوا چھوت کو ختم کئے جانے کے بعد بھی کیا آپ لوگ ان سے ہاتھ ملاتے ہیں؟ جواب ہے نہیں۔ ہم اسی طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالات میں یقینی طور پر اصلاح ہونی چاہیے۔ آزادی کو 70سال گزر گئے ہیں لیکن یہ چیزیں آج بھی جاری ہیں۔’
بنچ نے آگے کہا، ‘یہ سب سے غیر انسانی ہے کہ انسانوں کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جا رہا ہے۔’وینو گوپال نے بنچ کو بتایا کہ شہریوں کے ساتھ غلط کئے جانے اور اس کی ذمہ داری سے متعلق اذیت کا کوئی بھی قانون ملک میں ترقی نہیں کر سکا اور مجسٹریٹ کو ایسے واقعات کے بارے میں خود سے جانکاری لینے کا حق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جو آدمی سڑک پر جھاڑو لگا رہا ہے یا مین ہول کی صفائی کر رہا ہے اس کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن نگراں افسر یا ایسے افسر جن کی ہدایت پر کام کیا جاتا ہے ان کو اس کے لئے جوابدہ مانا جانا چاہیے۔