بی بی سی ڈاکیومنٹری پر روک لگانے کے لیے سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے حکومت کی مذمت کی

بی بی سی ڈاکیومنٹری سیریز 'انڈیا: دی مودی کویسچن' پر ہندوستانی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کو 500 سے زیادہ ہندوستانی سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصاندہ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکیومنٹری پر روک لگانا ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بی بی سی ڈاکیومنٹری سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ پر ہندوستانی حکومت کی جانب  سے عائد پابندیوں کو 500 سے زیادہ ہندوستانی سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصاندہ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکیومنٹری  پر روک لگانا ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

(اسکرین شاٹ بہ شکریہ: بی بی سی یوکے)

(اسکرین شاٹ بہ شکریہ: بی بی سی یوکے)

نئی دہلی: 500 سے زائد ہندوستانی سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے وزیر اعظم نریندر مودی پر  بنی بی بی سی ڈاکیومنٹری  پر پابندی عائد کرنے پر مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئےایک بیان جاری کیا ہے، جس میں اس قدم کو ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے والا بتایا گیاہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے عنوان سے دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کو ہٹانا معاشرے اور حکومت کے بارے میں ضروری معلومات تک رسائی اور ان پر تبادلہ خیال کے ہندوستانی شہریوں کےحقوق کی خلاف ورزی ہے۔

بیان کے مطابق، ہم بی بی سی کی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی سینسرشپ سے مایوس ہیں۔ حکومت ہند نے اس دستاویزی فلم کو سوشل میڈیا سے یہ  بہانہ بناکر ہٹا دیا ہے کہ یہ ‘ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے’۔ یہ وضاحت ہمارے معاشرے اور حکومت کے بارے میں اہم معلومات پر تبادلہ خیال اور رسائی کے لیےہندوستانی کے طور پر ہمارے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔

انہوں نے یونیورسٹیوں کی جانب سے دستاویزی فلم کی نمائش کوروکنے کے لیے کیے گئے فیصلوں پر بھی تنقید کی ہے۔

سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے کہا کہ ملک بھر کی یونیورسٹی انتظامیہ نے دستاویزی فلم کی نمائش  کوروکنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تعلیمی آزادی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ سماجی اور سیاسی سوالات پر کھلی بحث کی حوصلہ افزائی کریں۔

بیان کے مطابق، جمہوری معاشرے کے ٹھیک سے کام کرنے کے لیے اس طرح کے مباحثے اہم ہیں۔ یونیورسٹیوں کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ وہ بعض خیالات کے اظہار کو صرف اس لیے روک دیں کہ وہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ، ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی سی ڈاکیومنٹری بنیادی طور پر کوئی نیا مسئلہ نہیں اٹھاتی ہے۔ 2002 میں ہیومن رائٹس کمیشن نے پہلے ہی ‘واضح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ گجرات کے لوگوں کے آئینی حقوق کے تحفظ میں ریاست  بڑے پیمانے پر ناکام رہی تھی، جس کی شروعات گودھرا کے واقعے سے ہوئی تھی اوربعد کے ہفتوں میں بھڑکا یہ تشدد جاری رہا۔ پچھلے 20 سالوں میں متعدد دانشور، فلمساز اور انسانی حقوق کے کارکن اسی طرح کے نتیجے پر پہنچے ہیں۔

سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے کہا کہ، اس کے باوجودجن  لوگوں نے 2002 میں گجرات میں تشدد کی حوصلہ افزائی اور اسے فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، ان کو کبھی  بھی جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ جوابدہی اہم ہے،  نہ صرف اس طرح کے واقعات کی تکرار کو روکنے کے لیے بلکہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو روکنے کے لیے بھی، جس سے ملک کے دوحصے میں تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔ اسی لیے بی بی سی ڈاکیومنٹری میں اٹھائے گئے سوالات اہم ہیں۔ فلم پر پابندی لگانا دراصل متاثرین کی آواز کو دبانے کا حربہ ہے۔

ان کے مطابق، یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہندوستان میں سینسر شپ پر ہماری تنقید کو بی بی سی یا برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی وسیع حمایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اسی لیے ہم بی بی سی ڈاکیومنٹری کے ناظرین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی اسکالرز اور کارکنوں کے ذریعے تیار کردہ وسیع اور قابل اعتماد مواد کے ساتھ اپنے علم میں اضافہ کریں۔

Statement on Censorship of … by The Wire

سپریم کورٹ نے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی کے خلاف دائرعرضیوں پرمرکز کو نوٹس جاری کیا

دریں اثنا، سپریم کورٹ نے جمعہ (3 فروری) کو مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ 2002 کے گجرات دنگوں پر مبنی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کے اپنے  فیصلے سے متعلق اصل ریکارڈ پیش کرے۔

جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے سینئر صحافی این رام، ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا، کارکن اور وکیل پرشانت بھوشن اور وکیل ایم ایل شرما کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران مرکز اور دیگر کو نوٹس جاری کیا۔

شرما نے ایک علیحدہ درخواست دائر کی تھی، جسے اب دستاویزی فلم پر پابندی کے سرکاری فیصلے کے خلاف دائر دیگر درخواستوں کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔

کیس کی اگلی سماعت اپریل میں ہوگی۔

بنچ نے کہا، ‘ہم نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ جوابی حلف نامہ تین ہفتوں کے اندر داخل کیا جانا چاہیے۔ اس کے دو ہفتے بعد اس پرجواب دیا جانا چاہیے۔ آئندہ سماعت پر اصل دستاویزات بھی عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے عبوری حکم جاری کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ حکومت کا موقف جانے بغیر فی الحال کوئی عبوری حکم جاری نہیں کر سکتی۔

بنچ نے کہا، ‘کیا ہم انہیں سنے بغیر عبوری راحت دے سکتے ہیں؟ ہم مدعا علیہان کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اگلی تاریخ پر اصل ریکارڈ پیش کریں۔

عرضیوں میں ان احکامات کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی معلومات سمیت تمام معلومات کو ‘براہ راست یا بالواسطہ سینسر’ کرتے ہیں۔

ان میں ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ اور گوگل انڈیا کو فریق بناتے ہوئے درخواست گزاروں کی جانب سے کیے گئے ٹوئٹ کو بحال کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے  کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی  ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی  ہے۔

حکومت نے20 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

تاہم، بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری پر قائم  ہےاور اس کا کہنا ہے کہ کہ کافی تحقیق کے بعد یہ ڈاکیومنٹری بنائی  گئی ہے ،جس میں اہم ایشوز کو غیر جانبداری کے ساتھ  اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی  ہے۔ چینل نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس پر حکومت ہند سے جواب مانگا تھا، لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس دوران ملک کی مختلف ریاستوں کے کیمپس میں دستاویزی فلم کی نمائش کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نےگزشتہ دنوں اس وقت احتجاجی مظاہرہ کیا تھا،  جب یونیورسٹی حکام نے دستاویزی فلم کی نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق، جہاں طلبہ تنظیموں نے کالجوں/یونیورسٹیوں میں اسکریننگ جاری رکھنے کی کوشش کی وہیں بجلی کاٹ دی گئی اور انٹرنیٹ کنکشن بھی معطل کر دیا گیا۔

اس کے باوجود، ملک بھر میں حزب اختلاف کی جماعتیں اور طلبہ گروپ اس دستاویزی فلم کی عوامی نمائش کرنےکی کوشش کر رہے ہیں، جن میں کچھ معاملوں میں پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہوا۔

اس سلسلے میں نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور آندھرا پردیش ورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن جیسے صحافتی اداروں نے کہا تھا کہ انہیں مختلف یونیورسٹیوں میں بی بی سی کی دستاویزی فلم نشر کرنے کی کوشش کرنے والے طلبہ اور ان کی یونین پر بڑھتے ہوئے حملوں کو لے کر تشویش ہے۔ہم  بہت پریشان  ہیں۔ ان کے مطابق یہ پریس کے حقوق اور آزادی پر حملوں کے تسلسل کا حصہ ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)