گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کے لیے عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو اگست 2022 میں گجرات حکومت کی جانب سے دی گئی معافی کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت نے اپنے ’اختیارات کا غلط استعمال‘ کیا ہے اور وہ قیدیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 2002 میں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کے مجرموں کو معافی دینے کے لیے گجرات حکومت کی تنقید کرنے والے اپنے فیصلے پرنظر ثانی کرنے کے لیے ‘ریکارڈ میں کوئی خامی واضح نہیں ہے’۔
گجرات فسادات کے دوران پانچ مہینے کی حاملہ بلقیس بانوکے ساتھ گینگ ریپ کے لیے عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرموں کو اگست 2022 میں گجرات حکومت کی طرف سے دی گئی معافی کورد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جنوری میں ک
ہا تھا کہ ریاستی حکومت نے انہیں قبل از وقت رہائی دینے میں ’اختیارات کا غلط استعمال‘ کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ گجرات حکومت قیدیوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی اور اس نے ان کی قبل از وقت رہائی کا حکم دینے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گجرات حکومت نے عدالت کے سامنے نظرثانی کے لیے ایک درخواست دائر کی، جس میں دلیل دی گئی کہ فیصلے میں اس کے کچھ مشاہدات ‘نہ صرف انتہائی نامناسب اور کیس کے ریکارڈ کے خلاف تھے، بلکہ اس نے ریاست کے تئیں شدید تعصب کو بھی جنم دیا ہے۔‘
تاہم عدالت نے جمعرات (26 ستمبر) کو گجرات حکومت کی نظرثانی کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
جسٹس بی وی ناگرتنا اورجسٹس اجول بھوئیاں کی بنچ نے کہا، ‘نظرثانی کی درخواستوں، چیلنج کیے گئےا حکامات اور اس سے منسلک دستاویز کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ریکارڈ میں کوئی خامی یا نظرثانی کی درخواست میں کچھ بھی ایسا پیش نہیں کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آئے۔‘
گیارہ مجرموں کو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بانو کے خاندان کے افراد کے ساتھ گینگ ریپ کرنے اور کم از کم 14 لوگوں کو ہلاک کرنے کا بھی قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔
گجرات حکومت نے اگست 2022 کی شروعات میں انہیں رہا کر دیا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے انہیں یہ کہتے ہوئے واپس جیل بھیجنے کا حکم دیا کہ انہیں استثنیٰ دینے کا حق گجرات حکومت کو نہیں، مہاراشٹر حکومت کے پاس ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ گجرات نے انہیں چھوٹ دینے میں مہاراشٹر کےاختیارات پر’تجاوز’ کیا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایک ملزم کے ساتھ حکومت کی ’ملی بھگت‘ بالکل وہی تھی جس کے بارے میں عدالت کواس معاملے کے پچھلے مرحلوں میں خدشہ تھا‘ اور اسی کی وجہ سے کیس کو مہاراشٹرا منتقل کرنا پڑا۔
دراصل، یہ سپریم کورٹ کی ہی ایک بنچ تھی جس نے مئی 2022 میں کہا تھا کہ گجرات حکومت مجرموں میں سے ایک کی سزا میں چھوٹ پر غور کرنے کے لیے ‘مناسب حکومت’ ہے۔
لیکن جنوری میں اس نے یہ کہتے ہوئے اس آرڈر کومنسوخ کر دیا کہ یہ ‘دھوکہ دہی سے حاصل کیا گیا تھا’۔
سپریم کورٹ کے مطابق، جنوری میں مجرم رادھے شیام شاہ نے چھوٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا، لیکن دیگر باتوں کے علاوہ اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا تھاکہ 2019 میں گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے چھوٹ دینے سے انکار کرنے کے بعد اس نے مہاراشٹر ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لیکن ناکام رہا تھا۔
سپریم کورٹ نے جنوری میں کہا تھا کہ یہ ‘متعلقہ حقائق کو غلط طریقے سے پیش کرنے اور دبانے’ اور ‘اس عدالت کے ساتھ دھوکہ دہی’ کے مترادف ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ گجرات حکومت 2022 میں نظرثانی کی درخواست دائر کر سکتی تھی جس میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ‘مناسب حکومت’ نہیں ہے اور اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو ‘آئندہ مقدمے بازی کی نوبت نہیں آتی۔’
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ریاستی حکومت نے اسے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس نے نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی تھی، لیکن اس نے عدالت کے سامنے ‘مسلسل کہا’ کہ وہ مناسب حکومت نہیں ہے۔
ریاست نے یہ بھی کہا کہ عدالت کا یہ مشاہدہ کہ ریاستی حکومت نے شاہ کے ساتھ ملی بھگت کی تھی ایک ‘انتہائی سخت تبصرہ’ تھا اور عدالت کا یہ مشاہدہ کہ ریاستی حکومت نے اختیارات کا غلط استعمال کیا ‘ایک خامی’ تھی۔
واضح ہو کہ سال 2002 کے گجرات فسادات کے دوران 21 سالہ حاملہ بلقیس بانو سے گینگ ریپ اور ان کی تین سالہ بچی سمیت ان کے خاندان کے کم از کم 14 افراد کے قتل کے الزام میں ان سبھی کوعمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
بتادیں کہ 15 اگست 2022 کو
گجرات کی بی جے پی حکومت کی معافی کی پالیسی کے تحت معافی ملنے کے بعد تمام 11 مجرموں کو 16 اگست کو گودھرا کی سب جیل سے
رہا کر دیا گیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ویڈیو میں جیل سے باہر آنے کے بعد ریپ اور قتل کے ان مجرموں کا استقبال
مٹھائی کھلا کر اور ہار پہنا کر کیا گیا تھا ۔
اس کو لے کر کارکنوں نے
شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت
6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔