تعقل پسند اور انسداد توہم پرستی کے کارکن 82 سالہ گووند پانسرے کو 16 فروری 2015 کو کولہا پور میں مارننگ واک سے گھر لوٹتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ قتل کے ملزم ہندوشدت پسند گروپ ‘سناتن سنستھا’ کے رکن ہیں۔
گووند پانسرے۔ (تصویر بہ شکریہ: leftword.com)
نئی دہلی: آنجہانی سماجی کارکن گووند پانسرے کےاہل خانہ نے مہاراشٹر انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کو لکھے گئے ایک خط میں ہندوتوا تنظیم سناتن سنستھا پر مہاراشٹرا اور کرناٹک میں دانشوروں کو منظم طریقے سے قتل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تنظیم کی سرگرمیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
دکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، بامبے ہائی کورٹ کی سماعت سے پہلے اے ٹی ایس پونے ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جینت مینا کو 68 صفحات پر مشتمل خط سونپا گیا تھا۔
یہ خط اس معاملے میں جاری تحقیقات کی نگرانی کر رہی بامبے ہائی کورٹ کے ایک حکم کے بعد آیا ہے، جس میں اے ٹی ایس کو جرم کے مقصد کا پتہ لگانےمیں مدد کرنےکے لیے پانسرے کے خاندان کی طرف سے پیش کردہ
اضافی مواد کی تحقیقات کی ہدایت دی گئی تھی۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے رہنما پانسرے ایک تعقل پسند اور سماجی کارکن تھے۔ وہ ٹریڈ یونین سے بھی وابستہ تھے۔ 15 فروری 2015 کو کولہا پور میں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے ان پر اور ان کی بیوی اوما پر حملہ کیا تھا۔ 20 فروری کو ممبئی کے بریچ کینڈی اسپتال میں ان کی مو ت ہو گئی تھی۔
پانسرے کے اہل خانہ نے قتل میں سناتن سنستھا کے بانی ڈاکٹر جینت اٹھاولے کے کردار کی تحقیقات کا اپنامطالبہ دہرایا ہے۔
خط میں
کہا گیا ہے ، ‘ سناتن سنستھا، ہندو جن جاگرتی سمیتی جیسی دائیں بازو کی ہندوتواتنظیموں نے سیکولرازم، عقلیت پسندی، مساوات اور حاشیے پر پڑی آبادی کی ترقی کے لیے زندگی بھر کام کرنے اور ‘شیواجی کون ہوتا’ جیسی کتابیں لکھنے کے لیے کامریڈ پانسرے کی شدید مخالفت کی تھی۔’
پانسرے، ڈاکٹر نریندر دابھولکر، پروفیسر ایم ایم کلبرگی اور صحافی گوری لنکیش کے قتل میں مماثلت کی بات کرتے ہوئے خط میں کہا گیا ہے کہ پانسرے قتل کیس میں اٹھاولے، سناتن سنستھا کے لیڈر وریندر مراٹھے اور دیگر کے خلاف ان کے مبینہ کردار کے لیے ضروری کارروائی کیے لیے قدم اٹھایا جانا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق ، خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے، ‘ہم آپ کی توجہ کامریڈ پانسرے کے معاملے میں دائر کی گئی پانچ چارج شیٹ کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ بارہ افراد کو ملزم بنایا گیا ہے جن میں سے دو کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔ تمام ملزمان سناتن سنستھا/یا ہندو جن جاگرتی سمیتی کے رکن ہیں، اور کچھ ملزم کے نام ڈاکٹر نریندر دابھولکر، پروفیسر ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش کے قتل کیس کے ساتھ ساتھ نالاسوپارہ اسلحہ ضبطی کیس اور دیگر متعلقہ معاملات میں بھی ہیں، جو ثابت کرتا ہے کہ ان تمام معاملات میں ایک مشترکہ ربط موجود ہے۔’
‘مجرموں کا منظم دہشت گرد نیٹ ورک’
پانسرے کے اہل خانہ نے کہا کہ اے ٹی ایس، سی بی آئی اور مہاراشٹر، کرناٹک اور گوا کی پولیس چار قتل اور دیگر جرائم میں ہندوتوا تنظیم کے کردار سے واقف ہے۔
انہوں نے کہا’تفتیش کرنے والی ایجنسیاں اس بات سے واقف ہوں گی کہ کن وجوہات کی بناء پر اس لنک کی تفتیش نہیں کی گئی ہے،’انہوں نے مزید کہا کہ ،اٹھاولے اور مراٹھے کی رہنمائی اور ہدایات کے تحت مجرموں کے ایک منظم دہشت گرد نیٹ ورک کے طور پر سناتن سنستھا اور اسے کنٹرول کرنے والے لوگوں کے رول کی جانچ ضروری ہے۔
خط میں نالاسوپارہ میں دھماکہ خیز مواد ضبط کرنے کے معاملے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جہاں 2018 میں مہاراشٹر اے ٹی ایس نے بڑی تعداد میں پستول اور دھماکہ خیز مواد ضبط کیا تھا۔ اس کیس میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں بارہ افراد، جو کہ سناتن سنستھا اور ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ممبران تھے ،کو نامزد کیا گیا تھا۔
خط میں کہا گیا ہے، ‘نالاسوپارہ معاملے میں اے ٹی ایس کی طرف سے داخل کی گئی چارج شیٹ کو پڑھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سناتن سنستھا اور اس کے ارکان کا مقصد بڑے پیمانے پر سماج کو دہشت زدہ کرنا اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو انجام دینا ہے۔’
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ؛
‘حقائق اور حالات بتاتے ہیں کہ اس میں ایک بڑی سازش شامل ہے اور ملزمان کے علاوہ کچھ ماسٹر مائنڈز بھی ملوث ہیں۔ تفتیشی ایجنسی کو سناتن سنستھا کے ان عہدیداروں سے پوچھ گچھ کرنی چاہئے تھی، جن کے اس بڑی سازش میں ملوث ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔’
بامبے ہائی کورٹ کیس کی اگلی سماعت 12 جولائی کو کرے گا۔