1996 میں راجستھان میں ہوئے سملیٹی بلاسٹ معاملے کے 6 ملزمین رئیس بیگ، جاوید خان، لطیف احمد واجہ، محمد علی بھٹ، مرزا نثار حسین اور عبدالغنی کو 23 سال بعد بری کر دیاگیا۔ ان لوگوں کو کبھی ضمانت نہیں دی گئی۔ رئیس بیگ کے علاوہ دیگر لوگ جموں و کشمیر کے رہنے والے ہیں۔
نئی دہلی: دہشت گردی کے الزام سے بری ہونے کے بعد کشمیر کے رہنے والے 48 سالہ محمد علی بھٹ کی ملاقات اپنے ماں باپ سے نہیں، بلکہ ان کی قبروں سے ہوئی۔ علی نے اپنے والد شیر علی بھٹ کو 12 سال پہلے دیکھا تھا۔راجستھان ہائی کورٹ نے گزشتہ 22 جولائی کو 23 سال پرانے سملیٹی بم بلاسٹ معاملے کے چھ ملزمین کو بری کر دیا۔ محمد علی بھٹ انہی ملزمین میں سے ایک ہیں۔
1996 میں راجستھان کے دوسا ضلع کے سملیٹی علاقے میں ہوئے اس دھماکے میں 14 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔راجستھان ہائی کورٹ کی عدالتی بنچ نے گزشتہ 22 جولائی کو رئیس بیگ (56)، جاوید خان، لطیف احمد واجہ (42)، محمد علی بھٹ (48)، مرزا نثار حسین (39) اور عبدالغنی (57) کو بری کر دیا۔اس معاملے میں ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عبدالحمید کو سنائی گئی موت کی سزا اور پپو عرف سلیم کو ملی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ہے۔
معاملے میں بری ہوئے لوگوں کے وکیل شاہد حسین نے بتایا کہ عدالتی بنچ نے دئے گئے فیصلے میں مانا کہ استغاثہ تمام چھ لوگوں کے خلاف الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔بری کئے گئے لوگوں میں سے رئیس بیگ آگرہ کا رہنے والا ہے جبکہ پانچ دیگر لوگ جموں و کشمیر سے ہیں۔دوسا ضلع کی باندی کئی کی سیشن عدالت نے تمام ملزمین کو آئی پی سی کی مختلف دفعات اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے اور ایکسپلو سو ایکٹ کے تحت ملزم بنایا تھا۔
مقامی عدالت نے ایک ملزم فاروخ احمد خان کو بری کر دیا تھا۔ اس کے خلاف ریاستی حکومت نے ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ لیکن ہائی کورٹ کی عدالتی بنچ نے ملزم خان کے معاملے میں مقامی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔22 مئی 1996 کو بیکانیر سے آگرہ جا رہی راجستھان روڈویز کی بس میں ہوئے بم دھماکے میں 14 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور 37 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
باندی کئی کی مقامی عدالت نے ڈاکٹر حمید کو بم بلاسٹ کا کلیدی ملزم مانا تھا اور سلیم کو ہتھیار سپلائی کرنے کا مجرم مانا تھا۔ اس معاملے کے علاوہ حمید 26 جنوری 1996 میں جئے پور کے سوائی مان سنگھ اسٹیڈیم میں بھی بم لگانے کا اہم ملزم تھا۔بہر حال عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد گزشتہ 23 جولائی کو ان ملزمین کو جئے پور سینٹرل جیل سے رہا کر دیا گیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، رہا ہونے کا بعد اپنے گھر سرینگر پہنچے محمد علی بھٹ نے والد کی قبر کے پاس روتے ہوئے کہا، ‘ میں چاہتا تھا کہ رہا ہونے کے بعد میرے والد مجھے اپنے گلے لگائیں تاکہ میں ان کو بتا سکتا کہ میں گھر آ گیا ہوں۔ ‘
Accused of terrorism and jailed for 23 years, Ali Mohammad, a resident of Srinagar was not found guilty, along with four other. But he lost his youth, parents and almost 2-and-a-half decade of his life. First thing he did when he returned home ⬇️⬇️
pic.twitter.com/nSXwR8PhFu— Aakash Hassan (@Aakashhassan) July 24, 2019
علی کی ماں کی قبر بھی والد کی قبر کے بغل میں بنائی گئی ہے۔ علی کے 23 سال جیل میں رہنے کے دوران ہی ان کی ماں کی بھی موت ہو گئی تھی۔علی جون 1996 کے ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب ان کو نیپال کی راجدھانی کاٹھ مانڈو واقع ان کے کرائے کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ علی وہاں قالین بیچا کرتے تھے۔انہوں نے بتایا، ‘ گاہک بنکر سادہ کپڑوں میں میرے پاس پولیس والے آئے تھے۔ وہ پہلے مجھے کاٹھ مانڈو کے پولیس ہیڈکوارٹر لے گئے اور پھر دہلی لے آئے۔ اس وقت میں 25 سال کا تھا۔ ‘
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق؛ سرینگر کے فتح کادل واقع اپنے گھر میں معاملے سے بری کئے گئے لطیف احمد واجہ کہتے ہیں، ‘ جیل میں کچھ سال گزارنے کے بعد میں اپنی پرانی زندگی بھول چکا تھا۔ میں نے جیل کو گھر اور وہاں کے دوسرے قیدیوں کو اپنی فیملی کے طور پر قبولکر لیا تھا۔ ‘
رپورٹ کے مطابق، علی اور لطیف اس معاملے میں ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔ لطیف کو بھی کاٹھ مانڈو سے گرفتار کیا گیا تھا۔بری کئے گئے لوگوں میں سب سے چھوٹے مرزا نثار نے کہا، ‘ میں اس نئی دنیا کے ساتھ ابھی تال میل نہیں بٹھا پا رہا ہوں۔ میں بستر پر نہیں سو پا رہا ہوں کیونکہ میں فرش پر سونے کا عادی ہو چکا ہوں۔ ‘
39 سالہ نثار کو جب گرفتار کیا گیا تب وہ صرف 17 سال کے تھے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، معاملے کے ایک ملزم رئیس بیگ آٹھ جون 1997 سے جیل میں بند تھے، جبکہ باقی کے پانچ ملزمین کو 17 جون 1996 سے 27 جولائی 1996 کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔ اس دوران ان لوگوں کو دہلی اور احمد آباد کی جیلوں میں رکھا گیا اور ان کو کبھی بھی ضمانت نہیں دی گئی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)