سابق وزیر خارجہ اور ترنمول کانگریس کے رہنما یشونت سنہا نے ایک انٹرویو کے دوران یوکرین پر روس کے حملے کے حوالے سے کہا کہ اگر زیادہ طاقتور ممالک اسی طرح دوسرے ممالک پر حملہ کرتے ہیں تو کل چین کو بھی تائیوان یا ہمارے یہاں لداخ اور اروناچل میں حملہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔
نئی دہلی: یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پوری دنیا وہاں تباہی کا منظر دیکھ رہی ہے اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے جارحانہ رویے کو دیکھ کر یہ خدشہ ہے کہ کہیں یہ عالمی جنگ کی صورت نہ اختیار کر لے۔
روس کے سب سےقریبی دوست ہونے کی وجہ سے دنیا کی نظریں ہندوستان کے رول پر بھی لگی ہوئی ہیں۔ اس معاملے پر سابق وزیر خارجہ اور ترنمول کانگریس لیڈر یشونت سنہا سے خبررساں ایجنسی بھاشاکے پانچ سوال اور ان کےجواب:
یوکرین پر روسی فوجی کریک ڈاؤن جاری ہے۔ دنیا کو خدشہ ہے کہ کہیں یہ تیسری عالمی جنگ کی صورت نہ اختیار کر لے۔ آپ کی کیارائے ہے؟
ساری دنیا کی یہی تشویش ہے کہ کہیں یہ عالمی جنگ میں نہ تبدیل ہوجائے اور عالمی جنگ ہونےکا مطلب ہےایٹمی جنگ۔ اگر ایسا ہوا تو اور کتنے لوگ مارے جائیں گے اس کی کوئی گنتی نہیں ہوگی۔ اس لیے مغربی ممالک بالخصوص یورپ میں اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک نہیں چاہتے کہ یہ تنازعہ اتنا بڑھے کہ ان کی فوج کو بھی اس میں حصہ لینا پڑے۔
ناٹو نے ایک صحیح موقف اختیار کیا ہے۔ وہ اس تنازعے کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ ایک انتہائی طاقتور ملک اور اس کی فوج ایک چھوٹے سے ملک پر حملہ کر کے اس کی آزادی کو چیلنج کر رہی ہے۔ یہ سب بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔
ایسے میں اگر کوئی زیادہ طاقتور ملک کسی کم طاقتور ملک کو جھکا دے اور اپنی بات ماننے پر مجبور کر دے تو پھر یہ جنگل راج بن جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو بھی ایک بین الاقوامی نظام تشکیل دیا گیا وہ ختم ہو جائے گا۔
اس جنگ کے لیے آپ کس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں؟
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ مغربی ممالک کی جانب سے بھی بہت اکسایا گیا (یوکرین کو)۔ روس کو گھیرکر رکھنے کی اس کی (مغربی ممالک) جو منشا ہے، وہ یوکرین کو ناٹو (شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) میں شامل کر کے روس کو گھیرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
یوکرین میں بہت بڑے بڑےایٹمی پلانٹ ہیں اور اس کی یوکرین کے ساتھ ساتھ روس کے لیے بھی کافی اہمیت ہے۔ ان سب سے پریشان ہو کر روس نے حملہ کر دیا۔
مجھے یہ کہنا ہے کہ روس کی تشویش درست تھی لیکن اس کا طریقہ غلط ہے۔ ان کو(روس) مذاکرات سے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اگر انہیں مذاکرات سے راستہ نکالنے میں دوسرے ممالک کی مدد کی ضرورت تھی تو انہیں وہ بھی لینا چاہیے تھا۔
جیسے فرانس کے صدر ابھی کوشش کر رہے ہیں۔ روس،ہندوستان کی خدمات بھی لےسکتا تھا۔ وہ ہندوستان سے مداخلت کے لیے کہہ سکتا تھا۔ وہ ہندوستان کو اس سمت میں کوششیں کرنے کو کہہ سکتا تھا تاکہ روس کی سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔
آپ ہندوستان کے اب تک کے موقف کا تجزیہ کیسےکریں گے؟
روس کے ساتھ ہماری بہت پرانی دوستی ہے۔ وہ ہر موقع پر ہندوستان کے کام آیا ہے۔ وہ ہمارا بہت ہی قیمتی دوست ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اگر کوئی بہت قریبی دوست بھی غلطی کرے تو دوست ہونے کے ناطے ہمارا حق ہے کہ ہم اسے بتائیں کہ بھائی یہ غلطی مت کرو۔
اب تک ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ حکومت ہند نے ایسا کچھ کیا ہو۔ ہمارے وزیر خارجہ کو تنازعہ شروع ہونے کے فوراً بعد وہاں جانا چاہیے تھا اور بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ہندوستان کی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر فورمز میں ووٹنگ سے دور رہا ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے جیسے ہم غلط کاموں میں روس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔
یوکرین میں پھنسے طلبہ کو واپس لانے کے لیے ‘آپریشن گنگا’ چلایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود سینکڑوں طلبہ اب بھی یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔
حکومت ہند اور ہم سب جانتے تھے کہ ہمارے طلبہ کی ایک بڑی تعداد وہاں پڑھنے کے لیے جاتی ہے۔ بالخصوص میڈیکل اسٹڈیز کے لیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت کے پاس یہ جانکاری ہوگی کہ روس حملہ کرنے والا ہے اور اگر ہمارے طلباوقت رہتے نہیں نکلے تووہاں پھنس جائیں گے۔ اس لیے انہیں وقت پر نکال لینا چاہیے تھا۔
انہیں وہاں سے نکلنے کے لیےمجبور کرنا چاہیے تھا نہ کہ ان کی صوابدید پر چھوڑدینا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود وہاں سے کوئی نہیں نکلتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس کی غلطی ہے۔ اس سارے عمل میں جب گنگا کا پانی سر کے اوپر سے نکلنے لگا تب حکومت کا ‘آپریشن گنگا’ شروع ہو ا۔
آپ روس اور امریکہ کے حوالے سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا کیسے جائزہ لیں گے اور چین کے چیلنج کے پیش نظر اس کی سمت کیا ہونی چاہیے؟
اگر کوئی نیا ورلڈ آرڈر بنتا ہے تو ہندوستان اس میں بہت کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ اگر اسی طرح زیادہ طاقتور ممالک دوسرے ممالک پر حملہ کرتے ہیں تو کل چین کو تائیوان یا ہمارے پاس لداخ اور اروناچل میں حملہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔
اروناچل خاص طور پر۔ کیونکہ چین یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اروناچل ان کا ہے۔ تو کیا ہوگا اگر کل وہ اپنی فوج کو اروناچل پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجے؟
دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح دنیا یوکرین کے معاملے میں غیر جانبدار بنی رہی اسی طرح ہندوستان اور چین کے معاملے میں بھی غیر جانبدار رہے گی۔ اگر نیا ورلڈ آرڈر بنتا ہے تو اس میں تمام ممالک اپنی فکر کرنے کے لیے رہ جائیں گے۔ ہندوستان کو چین کو لے کر ضرور فکر کرنی چاہیے اور پورے انتظامات کرنے چاہیے۔ ہمیں غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔