یوکرین کے اس قضیہ کو ہندوستان میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے ۔ کیونکہ 1962 میں جب بڑی طاقتیں کیوبا کے میزائل قضیہ کو سلجھانے میں مصروف تھیں ، تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے ہندوستان پر فوج کشی کرکے اس سے 43000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لیاتھا ۔
ماسکو کی گہما گہمیوں سے چند دن مستعار لے کر سوویت یونین کے سربراہ نکیتا خروشچیف 1961کے آس پاس جب جارجیا میں اپنے فارم ہاؤس میں چھٹیاں منانے کے لیے پہنچے تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ان کی یہ چھٹیاں دنیا پر تیسری عالمی جنگ کا خطرہ لےکر وارد ہو جائیں گی۔
ان کے آنے سے قبل اس فارم ہاؤس میں روسی سائنسدانوں کی تیار کروہ انتہائی جدید دوربین نصب کی گئی تھی۔ فارم ہاؤس کے اطراف ہرے بھرے علاقے اور صاف و شفاف پانی کا لطف لیتے ہوئے جب خروشچیف نے دوربین سے باہر کی دنیا دیکھی تو سرحد کے دوسری طرف ترکی میں امریکی فوجی مستقر صاف دکھائی دے رہا تھا۔
حتیٰ کہ اس مستقر پر موجود جوپیٹر جوہری میزائل بھی دکھائی دے رہے تھے مگر جس چیزنے روسی سربراہ کو مضطرب کر دیاوہ یہ تھا کہ ان میزائلوں کا رخ اسی فارم ہاؤس کی طرف تھا۔ یعنی چند سیکنڈ میں ہی یہ میزائل خروشچیف کے فار م ہاؤس کو نیست و نابود کرسکتے تھے۔ روسی سربراہ کی چھٹیاں کرکری ہو گئی تھیں۔
ماسکو واپسی پر خروشچیف نے اپنے قریبی معتمدوں کو اعتماد میں لےکر ایک ایسے انتہائی خفیہ آپریشن کا آغاز کیاجس کی بھنک بھی اگلے ایک سال تک امریکی خفیہ اداروں کو نہیں ملی۔ یہ آپریشن تھا امریکہ کی ناک کے نیچے یعنی کیوبا میں جوہری میزائل نصب کرنا تاکہ امریکی صدر بھی اسی طرح عدم تحفظ کا شکار ہو جائے جس طرح وہ خود ہوگئے تھے۔
وہ تو بھلا ہوا ایک امریکی یوٹو جاسوسی طیارے کا ، جس نے میزائلوں کی باضابطہ تنصیب کے ایک عرصہ بعد اکتوبر 1962 میں کیوبا کے اوپر پرواز کرتے ہوئے چند تصویریں کھینچیں۔ جب ان تصویروں میں دکھائے ایک ساحلی شہر کے پاس ایک نئی سڑک اور اس کے اختتام پر ایک کھلی جگہ پر کرین اور عمارتی لکڑی کے تختوں پر ایک تجربہ کار فوٹو اینالسٹ کی نظر پڑ گئی تو اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تختے صرف اور صرف سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں سے لیس 82-12میزائل ہیں۔
جب اس کی اطلاع امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو دی گئی تو اس نے سکیورٹی سے وابستہ تمام اہلکاروں اور وزیروں کی میٹنگ میں اس فوٹو اینالسٹ کو بھی مدعو کیا ، جس نے فوٹو دکھاکر اور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کردیا کہ جاسوسی طیاروں کے ذریعے لی گئی تصاویر سوویت میزائل ہیں۔
میٹنگ میں چند وقفے تک تو سکتہ سا چھا گیا اور پھر وہاں موجود افراد نے امریکی خفیہ تنظیم سی آئی اے کے سربراہ جان میککان کو آڑے ہاتھوں لیا، جو حال ہی میں اپنے ہنی مون کی چھٹیاں مکمل کرکے واشنگٹن لوٹے تھے۔ سبھی افراد یہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ سوویت بحری جہاز میزائل اور اس کے لانچر وغیرہ لاد کر کس طرح امریکی خفیہ اداروں اور اتحادیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پہلے بحیرہ اسود اورنیٹو کی ناک کے نیچے بحیرہ روم اور پھر بحر اوقیانوس کو پار کرکے ، کس طرح ماہرین کے ساتھ کیوبا وارد ہوئے۔
اور امریکہ کو تب پتہ چلا ، جب 40کے قریب میزائل آپریشن کی حالت میں نصب کیے جا چکے تھے۔ سی آئی آے کے سربراہ کو یاد آرہا تھا کہ اس کے ہنی مون پر جانے سے قبل میامی کے دفتر میں کچھ ایسی اطلاعات آرہی تھیں ، جن میں بتایا گیا تھا کہ کیوبا کے قصبوں کی شاہراہوں پر رات بھر دیو ہیکل ٹرکوں کی آمد رفت ہو رہی ہے، جن پر کینوس سے ڈھکی ہوئی لمبی چیزیں لدی ہوتی ہیں۔
کئی بار ان ٹرکوں کو ان پر لادے بوجھ کی وجہ سے موڑکاٹنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ایک سال قبل خلیج پگز میں کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا سی آئی اے کا پلان بری طرح ناکام ہو گیا تھا اس لیے ادارے نے محتاط قدم اٹھا کر دیگر ذرائع سے بھی اطلاعات کی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ابھی بھی ٹرکوں میں لادے ہوئے ساز و سامان کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر پا رہے تھے۔
سی آئی اے کا فوٹو اینالسٹ امریکی صدر کو بتائے جا رہا تھا کہ کیوبا میں نصب یہ میزائل ایک ہزار میل کی دوری تک مار کرسکتے ہیں اور محض 13منٹ میں ہی واشنگٹن کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 22اکتوبر 1962کو صدر کینیڈی نے قوم کے نام پیغام میں بتایا کہ سوویت میزائل امریکی براعظم میں پہنچ چکے ہیں اورعوام کو جنگ کے لیے تیار رہنے کی اپیل کی۔
اسی دوران جب ایک اور امریکی جاسوسی طیارہ کیوبا کے اوپر اڑان بھر رہا تھا تو میزائل ڈیفنس سسٹم نے اس کو مار گرایا۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں امریکی فوجی اڈوں سے فوجیوں کی نقل و حمل شروع ہوگئی اور دنیا ایک تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوگئی۔ بعد میں جو تفصیلات منظر عام پر آئیں ان کے مطابق یہ میزائل بحیرہ اسود میں موجود کریمیاء کی بندر گاہ سیواستو پول سے جہازوں میں لادے گئے تھے۔
اس سے کئی ماہ قبل اس پورے علاقے میں سوویت خفیہ ادراوں نے آپریشن کرکے مشکوک افراد ، جن میں شاعر، مصور اور وہ یہودی بھی شامل تھے جو اسرائیل جانے کے لیے پر تول رہے تھے، کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ بندرگاہ جانے والے ہرشخص کی نگرانی کی جارہی تھی۔ بحری جہازوں کے کپتان و عملہ کو بتایا جاتا تھا کہ یہ ساز و سامان سائبریا کے لیے لوڈ ہو رہا ہے۔
لنگر اٹھانے سے قبل خروشچیف کا ایک معتمد کپتان کے ہاتھ میں ایک مہر بند لفافہ پکڑاتا تھا جو اس کو بحیرہ اسود کراس کرکے بحیرہ روم میں کھولنا ہوتا تھا، جس میں اس کو کیوبا جانے کی ہدایت درج ہوتی تھی۔ ایک لمبی اعصاب شکن سفارتی تگ و دو کے بعد امریکہ نے ترکی اور اٹلی سے اپنے جوہری میزائل ہٹانے کا اعلان کردیا، جس کے جواب میں سوویت یونین نے کیوبا سے میزائل واپس لاکر امریکی صدر کینیڈی کو راحت فراہم کی۔
اس پوری رسہ کشی میں کیوبا ایک شطرنج کا بورڈ بن گیا۔ لگ بھگ 60 سال بعد ایک بار پھر دنیا یوکرین میں امریکی میزائلوں کی تنصیب اور بڑی طاقتوں کی رسہ کشی کی وجہ سے جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ کردار وہی ہیں مگر ان کا رول الٹ ہے۔ جو رول کیوبا میزائل قضیہ کے دوران سوویت یونین کا تھا، وہ اب امریکہ کا ہے، جس نے روس کی ناک کے نیچے اس کی سرحد سے متصل اپنا جدید اسلحہ نصب کردیاہے، جس کے جواب میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین کی سرحدوں پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب فوج اکٹھی کی ہے۔
امریکی اور پورپی ممالک نے پہلے ہی یوکرین کے دارالحکومت کیف میں اپنے فوجی مبصر تعینات کیے ہیں۔ خود امریکی صدر جو بائیڈن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی فوجی کارروائی ہوسکتی ہے، جس سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے اب تک تین سو کےقریب جوالین میزائل اور بنکر نیست و نابود کرنے والے انتہائی مہلک بم یوکرین پہنچادیے ہیں۔
جنگ کی صورت میں روس سے گیس کی ترسیل بند ہونے کی صورت میں یورپی ممالک متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ امریکہ اگلے چند روز میں 8500فوجی یوکرین یا اس کے آس پاس متعین کر رہا ہے اور یورپ میں موجود 64000 سپاہیوں کو تیاررہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
روس نے اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مولدوا اور کریمیاء میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقیں کی ہیں اور اس کے علاوہ بحیرہ عرب میں چین کے اشتراک کے ساتھ بحری مشقیں بھی کی ہیں ۔ روس نے اپنے اسکندر میزائلوں کو بھی حالت تیاری میں رکھے ہیں اور یوکرین کی سرحد پر 60جنگی جہاز اور بمبار تیاری کی انتہائی حالت میں ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ 42ملین آبادی پر مشتمل اور 6لاکھ مربع کیلومیٹر پر محیط یوکرین مشرقی یورپ میں واقع ہے اور 1991تک سویت یونین کا حصہ تھا ۔ اس کی سرحدیں ، روس کے علاوہ، پولینڈ، بیلاروس، سلوواکیہ ، رومانیہ ، ہنگری اور مالدوا کے ساتھ ملتی ہیں ۔
یہ سارا قضیہ ہی اس وقت شروع ہوا ، جب امریکی کی قیادت میں ناٹو اتحاد نے یوکرین کی ممبر شپ کی درخواست کو منظور کر لیا ۔ روس کا خیال ہے کہ ناٹو اتحادی ہونے کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی مزید اسلحہ اس کی سرحد کے پاس اکٹھا کریں گے ۔
افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ روس کو چین کو قابو میں کرنے کےلئے ایشیاء بحرالکاہل کے خطے سمیت بلقان ملکوں کے علاوہ وسط ایشیاء میں بھی پیر جمانے کی کوشش کر رہا ہے، جس پر روس اور چین جز بجز دکھائی دیتے ہیں ۔ اس سے قبل 2013 میں جب اس وقت کے یوکرین کے صدر وکٹر یان کووچ نے یورپی یونین مین شامل ہونے سے انکار کردیاتو ایک سال بعد عوامی بغاوت نے ان کو معزول کردیا ۔
مگر ملک کے جنوبی حصوں یعنی کریمیاء میں روسی بولنے والی آبادی نے تومعزول صدر کی حمایت کرکے کرکے یوکرین سے علیحدگی کا اعلان کرکے روس سے ساتھ الحاق کردیا ۔ جس کو یورپی ممالک تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔
یوکرین کے اس قضیہ کو ہندوستان میں خاصی تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے ۔ کیونکہ 1962 میں جب بڑی طاقتیں کیوبا کے میزائل قضیہ کو سلجھانے میں مصروف تھیں ، تو اس کا فائدہ اٹھاکر چین نے ہندوستان پر فوج کشی کرکے اس سے 43000مربع کلومیٹر کا علاقہ ہتھیا لے لیاتھا ۔ 1961 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی ایما پر فارورڈ پالیسی اختیار کرکے، ہندوستان نے اپنی فوجیں متنازعہ سرحد پر چینی پکٹوں کے آگے تعینات کرنے کا فرمان جاری کیے تھے، تاکہ چینی افواج کی سپلائی لائن کاٹ کر ان کو میک موہن لائن کے دوسری طرف دھکیلا جائے۔
دستاویزات کے مطابق نئی دہلی کو امید تھی کہ چین اس کے جواب میں بس اکا دکا سرحدی جھڑپوں پر ہی اکتفا کرے گا، کیونکہ مکمل فوجی کارروائی کی صورت میں سویت یونین اور امریکہ جلد ہی ہندوستان کی مدد کو آپہنچیں گے ۔ دوسری طرف سویت یونین نے اس سے قبل کئی بار اور پھر 1971 میں بھی چینی سرحدوں پر فوجی نقل و حمل کرکے اس کوہندوستان کے خلاف کسی بھی کارروائی کو کرنے سے باز رکھا تھا ۔ مگر کیوبا کے قضیہ نے چین کو ایک ایسا موقع فراہم کرایا جس سے نہ صرف ہندوستان کی فارورڈ پالیسی کی ہوا نکل گئی، بلکہ بین الاقوامی برادری میں اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگئی ۔
تاریخ شاید ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے ۔ کیونکہ 2020سے 60سال کے بعد چینی اور ہندوستانی افواج ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور بڑی طاقتیں یوکرین میں برسر پیکار ہیں ۔ یوکرین کے تنازعہ کی وجہ سے امریکہ فی الحال چین کو قابو میں رکھنے کی اپنی ایشیا پیشفک پالیسی بھی بھول چکا ہے، اور اس خطے میں اس نے اپنے اتحادیوں کو بڑی حد تک اب چین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔
چین بھی 1962کے مقابلے اب خودہی ایک فوجی اور اقتصادی طاقت ہے، جو اب بڑی حد تک امریکہ کے ہم پلہ ہے اور روس اس کے ایک اتحادی کے بطور ابھر رہا ہے ۔ یہ شاید ہندوستان کےلیے خطرے کی گھنٹی کے ساتھ ساتھ یہ موقع بھی فراہم کررہا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ نتیجہ خیز گفت و شنید کے دروازے کھول کر تنازعات کو پر امن طورایک ٹائم فریم کے اندر سلجھانے کے سامان کیے جائیں ، تاکہ 1962جیسے واقعات کا اعادہ نہ ہو ۔