ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل انڈیا کے ذریعہ جاری رپورٹ میں انفارمیشن کمیشن میں خالی عہدوں کو آر ٹی آئی کی فعالیت کے لیے رکاوٹ بتایا گیا ہے۔ریاستوں کے معاملے میں اتر پردیش نے 14 سال میں ایک بھی سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی ہے،جبکہ بہار انفارمیشن کمیشن کی اب تک ویب سائٹ بھی نہیں بن پائی ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان میں بدعنوانی کے خلاف مضبوط ہتھیار کے طور پر نافذ کیے گئے آر ٹی آئی قانون کے استعمال کی رفتار گزشتہ 14 سالوں میں دھیمی رہی ہے اور محض 2.5 فیصدی لوگوں نے ا س قانون کا استعمال کیا ہے۔ریاستوں کے معاملے میں اتر پردیش نے 14 سال میں ایک بھی سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی ہے،جبکہ بہار انفارمیشن کمیشن کی اب تک ویب سائٹ بھی نہیں بن پائی ہے۔
سنیچر کو آر ٹی آئی ڈے کے موقع پر غیر سرکاری تحقیقی ادارے’ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل انڈیا’ کے ذریعہ جاری رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں 2005 میں آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کے بعد 14 سالوں میں ملک کے کل3.02 کروڑ ( تقریباً 2.25فیصد ) لوگوں نے ہی آر ٹی آئی کا استعمال کیا ہے۔سنٹرل انفارمیشن کمیشن اور ریاستوں کے انفارمیشن کمیشن میں آر ٹی آئی کے استعمال سے جڑے حقائق کے مطالعہ کی بنیاد پر تیار رپورٹ کے مطابق سینٹرل کمیشن کے مقابلے میں ریاستوں کے سست رویے کی وجہ سے پورےملک کا رپورٹ کارڈ متاثر ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق،آر ٹی آئی کی تعمیل کو لے کر عالمی درجہ بندی میں ہندوستان دوسرے پائیدان سے گر کر اب 7 ویں پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رام ناتھ جھا نے رپورٹ کی بنیاد پر کہا کہ عالمی درجہ بندی میں جن ممالک کو ہندوستان سے اوپر جگہ ملی ہے،ان میں زیادہ تر ممالک نے ہندوستان کے بعد آر ٹی آئی قانون کو نافذ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ملک میں 12 اکتوبر 2005 کو آر ٹی آئی قانون نافذ ہونے کے بعد سے ہر سال اس دن آر ٹی آئ ڈے منایا جاتا ہے۔ یہ قانون مرکزی حکومت،سبھی ریاستی حکومت،لوکل اربن باڈیز اور پنچایتی راج اداروں میں نافذ ہے۔جھا نے کہا، قانون بنانے کے بعد مانا جا رہا تھا کہ اس سے بدعنوانی پر لگام لگے گی اور حکومت کے طریقے کار میں شفافیت آئے گی۔لیکن قانون نافذ ہونے کے 14 سال بعد بھی حکومتی مشینری میں رازداری کے ورک کلچر کی وجہ سے افسروں کی سوچ میں تبدیلی کی رفتار دھیمی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ،انفارمیشن کمیشن کے سامنے 14 سال میں پیش کی گی 3.02کروڑ آر ٹی آئی درخواستوں میں اب تک 21.32 لاکھ درخواست گزاروں نے دوبارہ اپیل یا شکایت درج کی ہے۔رپورٹ میں ریاستی کمیشن کے ذریعہ اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرنے کی قانون کی لازمی شرط کو نہ ماننے کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔اس کے مطابق 18-2017 کےدوران صرف 9 ریاست ہی سالانہ رپورٹ پیش کر پائی ۔
صرف مرکزی انفارمیشن کمیشن اور کچھ ریاست ہی ہر سال باقاعدہ طور پر سالانہ رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔اتر پردیش نے 14 سال میں ایک بھی سالانہ رپورٹ پیش نہیں کی ہے، جبکہ بہار انفارمیشن کمیشن کی اب تک ویب سائٹ بھی نہیں بن پائی ہے۔
رپورٹ میں آر ٹی آئی درخواستوں کے تجزیہ کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ملک میں 50 فیصد سے زیادہ آر ٹی آئی درخواست دیہی علاقوں سے کی جاتی ہے۔ان میں بھی ریاستی حکومتوں کے مقابلے میں مرکزی حکومت کے محکموں سے مانگی گئی جانکاری کی حصہ داری زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق، سال 2005 سے 2017 کے دوران مختلف مرکزی وزارت کو 7893687 آر ٹی آئی درخواست ملی ۔
اس کے مطابق،آر ٹی آئی کی کل درخواستوں کی تعداد کی بنیاد پر 5 سر فہرست ریاستوں میں مہاراشٹر (6180069 درخواست) پہلے مقام پر،تمل ناڈو(2691396) دوسرے اور کرناٹک (2278082) تیسرے مقام پر ہے جبکہ کیرل اور گجرات چھوتھے اور پانچویں پائیدان پر ہیں۔وہیں،آر ٹی آئی کا سب سے کم استعمال کرنے والی ریاستوں میں منی پور،سکم،میزورم،میگھالیہ اور ارونا چل پردیش ہیں۔
رپورٹ میں انفارمیشن کمیشن میں خالی عہدوں کو بھی آر ٹی آئی کی فعالیت کے لیے رکاوٹ بتایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود کل 155 سیٹوں میں سے 24 سیٹیں ابھی بھی خالی ہیں اور ملک میں صرف 7 خاتون انفارمیشن کمشنر ہے۔آر ٹی آئی کے استعمال کی بنیاد پر پکڑ میں آئی بے ضابطگی کے معاملوں میں ریاستی کمیشن کے ذریعہ اب تک 15578 پبلک انفارمیشن آفیسر پر جرمانہ لگایا گیا ۔ اتراکھنڈ انفارمیشن کمیشن نےگزشتہ 3 سالوں میں سب سے زیادہ 8.82لاکھ روپے کا افسروں پر جرمانہ لگایا جبکہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے 2 کروڑ روپے جرمانہ لگایا ۔جھا نے کہا کہ ادارہ جلد ہی آر ٹی آئی کی بہتر کارکردگی،بیداری وغیرہ معیارات کی بنیاد پر ریاستوں کی رینکنگ جاری کرے گی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)