حزب اختلاف کا کردار اور آر ایس ایس کی وہی پرانی سازش …

اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں طاقتور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف کیےجانے والے سفاک حملوں کی دھارکند کرنے کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے واجپائی پر اپنی طرف سے منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ آج نریندر مودی کے سامنے بھی مضبوط اپوزیشن ہے، اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اسی تجربے کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سرسنگھ چالک موہن بھاگوت۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

سرسنگھ چالک موہن بھاگوت۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@RSSOrg)

نئی دہلی: کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جیسے ہی ملک کے رائے دہندگان نے اپوزیشن کو طاقت بخشی ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت ‘جمہوری اقدار اور باہمی احترام کے پیروکار’ بن گئے اور اپنے سیاسی محاذ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے ’سپر ہیرو‘  نریندر مودی کو ’آئینہ دکھانے‘کابھرم پیدا کرنے لگے کہ دیر سے ہی صحیح آر ایس ایس اور بی جے پی-مودی کے تضادات کی پرتیں الجھنے اور کھلنے لگی ہیں؟

‘نہیں،قطعی نہیں’۔آر ایس ایس اور بی جے پی کو ٹھیک سے سمجھنے والے مبصرین کے پاس اس سوال کا ایک ہی ‘ڈیفنٹ، سرٹین، پازیٹو اینڈ ایبسولیوٹ’ جواب ہے، ‘یہ اتفاق نہیں، اٹل بہاری واجپائی کے وزارت عظمیٰ میں شروع ہوئے آر ایس ایس کے انتہائی پرعزم  تجربے کا اعادہ ہے اور اس کا واحد مقصد اقتدار کے ساتھ اپوزیشن کے کردار کو بھی اپنے دست تصرف میں لے لینا ہے۔ تاکہ ان میں سے کوئی بھی فریق سنگھ پریوار کی دسترس سے باہر نہ رہے اور دونوں میں اس کی بھرپور رسائی ہو۔

اٹل کے دور اقتدار کے  تجربے کا اعادہ

اٹل کے دور اقتدار میں ہوش سنبھالنے والےقارئین کو  ابھی بھی یاد ہوگا کہ اس وقت کس طرح آر ایس ایس نے ان پر اور ان کی حکومت کے خلاف طاقتور اپوزیشن کی طرف سے کیے جانے والے سفاک حملوں کی دھار کو کند کرنے کے لیے آر ایس ایس نے اپنی طرف سےان  پر منصوبہ بند اور اسپانسر حملے کیے تھے۔ اسی سلسلے میں، اس کے مزدور رہنما دتوپنت ٹھینگڑی نے  اٹل کو ‘ہندوستان کی تاریخ کا سب سے کمزور وزیر اعظم’ تک کہہ ڈالا تھا۔ یہی نہیں، اٹل کی حکمرانی کے انداز، یہاں تک کہ وزراء کے انتخاب تک کے حوالے سے بھی سنگھ سفاک  تنقیدی موقف اپناتا تھا۔

مودی خوش قسمت ہیں کہ  وہ اپنے اب تک کے دس سالوں میں سنگھ کے اس نوع کے حملوں سے محفوظ رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس عرصے میں یعنی 2014 اور 2019 کے دونوں لوک سبھا انتخابات میں اٹل کے برعکس انتہائی کمزور اپوزیشن سے ان کا  سابقہ پڑا۔ جس کے باعث  یہ ان کی آسمانی پروازوں کے دن تھے – ‘کانگریس مکت(پڑھیے اپوزیشن سے پاک) بھارت’ کی اپیل کے دن تھے۔ فطری طور پر آر ایس ایس نے اس وقت ایسی بے جان اپوزیشن سے اس کےکردار کو چھیننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ورنہ اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے بھاگوت، مودی اور ان کی حکومت کے جن عزت مآب کا اب ذکر کر رہے ہیں،ان کا جنم اسی دور میں ہوا۔

یہاں ایک اور سوال ہے کہ اگر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اکثریت سے پیچھے نہ ہوتی اور مودی نے اسے ‘چار سوپار’ لے جانے کا معجزہ انجام دے دیا ہوتا تو کیا موہن بھاگوت ان  کی انانیت ، طور طریقوں  اور منی پور کوسال بھر جلتا چھوڑے رہنے کے بارے میں اتنی ہی بےباکی سے زبان کھولتے؟

نہیں، پچھلے دس سالوں میں ان کا طرز عمل اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس وقت وہ ‘ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی’ پر  عمل کرتے نظر آتے۔تعجب نہیں کہ ان کے قصیدے بھی پڑھتے۔آخر کار، 22 جنوری 2023  کو ایودھیا میں رام للا کی پران—پرتشٹھا کی تقریب  تک تو ان کا یہی  کہنا تھا کہ ‘مودی تپسوی  ہونے کے لیے جانے جاتے ہیں۔’

اس وقت انہیں سیکولر ہندوستان کے وزیر اعظم کےیکطرفہ طور پر اکثریتی مذہب کا کفیل بن جانے میں کوئی بے حیائی نظر نہیں آئی تھی۔ابھی بھی، ان کے جمبو کابینہ میں مسلمانوں کی برائے نام کی بھی  شرکت کی عدم موجودگی میں کچھ بھی  غیر منصفانہ یا غیر جمہوری نظر نہیں آتا۔

اس وقت تو خاموشی اختیار کر رکھی تھی

ٹھیک ہے کہ اب انہیں اس ‘تپسیا’ پر  اَنا  کا غلبہ نظر آنے لگا ہے، لیکن اس وقت  تو  اپواس بھی تپسیانظر آتی تھی۔ اسی لیے تو انہوں نے ‘ایک سچے سیوک کوگھمنڈ سے  دور رہ کر، دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اور ‘مریادا’کی پیروی کرتے ہوئے کام کرنے’ کی بات نہیں کی۔ لوک سبھا انتخاب کا  مقابلہ جھوٹ پر مبنی ہو گیاتو بھی  انہوں نے یہ کہنے کے لیے نتائج کے اعلان ہونے تک انتظار کیا کہ ‘مریاداکا  خیال رکھا جانا چاہیے تھا’۔

غور کیجیے، اگر وہ اسی وقت مداخلت کرتے جب لوک سبھا کے انتخابات ایک جنگ کی طرح لڑے جا رہے تھے اور مودی اپنے نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اول جلول  کچھ بھی بول کر لگاتار سماجی اور ذہنی دراڑیں بڑھانے اور تفرقہ پیدا کرنے پر اتر آئے تھے، تو ملک اور اس کے اہل وطن کا کتنا بھلا ہوتا! لوک سبھا انتخابات سے پہلے کمزور اپوزیشن بار بار منی پور کا مسئلہ پارلیامنٹ کے اندر اور باہر اٹھا رہی تھی، اور مطلق العنان مودی دونوں جگہوں پر ان سنی کر رہے تھے۔ تب  بھاگوت ایک بار کہہ دیتے کہ منی پور کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا وزیر اعظم کا فرض ہے، تو اس کا آج یہ کہنے سے سو گنا زیادہ اثر ہوتا۔

لیکن انہوں نے اس کے لیے بڑی چالاکی سے سازگار ماحول  کا انتظار کیا، اور منہ کھولا تو  بھی  لوک سبھا انتخابات کے دوران ‘دونوں فریق نے  کمر کس کر حملہ کیا’کہتے ہوئے  ‘موافق سچائی’ سے ہی کام چلایا۔ یہ کہنے کی ہمت نہیں کی کہ حکمران جماعت نےاپنی مطلق العنانیت کی کوئی حد نہیں جانی۔ اورتو اور، ‘ انتخابی مہم میں آر ایس ایس کو غیر ضروری طور پر گھسیٹا گیا اور جھوٹ پھیلایا گیا’، توبھی انتخابی نتائج سے پہلے ان کے ہونٹ نہیں کھلے۔ انہوں نے مختلف مسائل پر اتفاق رائے کی روایت کو بھی اسی وقت یاد کیا جب مودی حکومت این ڈی اے حکومت میں تبدیل ہوگئی۔

کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مودی سرکار  کے  سامنے کوئی اپوزیشن نہ رہنے تک انہیں ہاہمی احترام  کے فقدان اور گھمنڈسے کوئی دقت نہیں تھی، اور اب یہ دقت  اس لیے ہونے لگی ہے کہ وہ طاقتور اپوزیشن سے اس کے کردار کی چمک کو ‘چھین’ لینا چاہتے ہیں؟ کون جانتا ہے کہ اپوزیشن بھی اس بات کو سمجھ رہی ہے یا بہت سے حلقوں کی طرح اسے اپنی طرف پھینکے گئے جال کے بجائے امید کی طرح لے رہی ہے۔ تاہم، اس میں اس کے لیے اتنا بھی امکان نہیں ہے، جتنا  بی جے پی کی عام سی اندرونی  لڑائی یا مودی یوگی تضادات میں  ہو سکتا ہے۔

مخالفین تو کب کے ‘دشمن’ بن چکے

ذرا سوچیے، پچھلے دس سالوں میں اپوزیشن لیڈروں سے دشمنی نبھانے والی مودی حکومتوں کے خلاف ایک لفظ تک نہ بولنے والے بھاگوت اب اپوزیشن کے لیے مخالف کے بجائے حزب اختلاف کا لفظ تجویز کرکے حکمراں  اور اپوزیشن  کوایک ہی سکے کے دو رخ کہہ کر خوش ہو رہے ہیں ، جبکہ کسی بھی جمہوری ملک کو حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے ایک ہی سکے کے دو رخ میں بدل جانے سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ صورتحال اسے کسی بھی سماجی یا سیاسی تبدیلی کے امکان سے محروم کرنے کی سمت میں گامزن کر سکتی ہے۔

یقیناً، بھاگوت نے اپنی تقریر میں کچھ ‘بھلی’ باتیں بھی کہی ہیں۔ ویسے ہی ، جیسے پہلے کہتے  رہے ہیں۔ مثال کے طور، پر اس ملک کے تمام لوگ بھائی بھائی ہیں اور ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ لیکن چونکہ ان کا پریوار ایسی ‘بھلی’ باتوں کو زبانی جمع خرچ تک  ہی محدود رکھتا ہے اور عملی جامہ نہیں پہناتا، اس لیے وہ کوئی امید پیدا نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے کہ منواسمرتی اور برہمنی برتری پر مبنی ہندو راشٹر کے قیام کا آر ایس ایس کاہدف ان کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت تو  ان سے کوئی امید ہی نہیں کرتی۔

سچ پوچھیں تو اس بار مودی کے ‘چار سو پار’ کے نعرے نے بھی آر ایس ایس کے اسی مقصد کی قیمت چکائی۔ ووٹروں کو خدشہ تھا کہ بی جے پی کو ‘چار سو بار’ پہنچانے کے بعد مودی آئین میں تبدیلی کر کے ملک کو آر ایس ایس کے خوابوں کا  ہندو راشٹر بنا دیں گے اور انہوں نے اس ڈر کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھاگوت  بول ہی  رہے تھے تو ان کو اس صورتحال پر بھی کچھ کہنا چاہیے تھا، لیکن وہ اس پر ‘دانشمندانہ’ خاموشی   اختیار کیے رہے۔

ہار ٹالتے کہ  اس کے اندیشے اور بڑھاتے؟

یہ بے وجہ نہیں ہے کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ مودی کی قیادت میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو چکی بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں آر ایس ایس کی مدد کی ضرورت نہ ہونے جیسی جو باتیں بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ‘انڈین ایکسپریس’ سے انٹرویو میں کہیں، وہ ہار کو سامنے کھڑی دیکھ کر آر ایس ایس کوہار کے داغ سے بچانے کی کوشش محض تھیں۔

اب بہت سی باتوں کے درمیان بھاگوت بھی یہی ثابت کر رہے ہیں – یہ کہہ کر کہ ‘ہم سے تو ٹھیک سے کہا ہی نہیں گیا’، ورنہ تکبر اور مجازی پروپیگنڈے کی وجہ سے بی جے پی کی جو  حالت ہوئی ہے،اسے  نہ ہونے دیتے—تو بھی اسی نظریے کی  تصدیق ہوتی ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ طاقتور آر ایس ایس ‘بہت سرگرم’ ہونے کے باوجود بی جے پی کو شکست سے کیسے بچا سکتی تھی؟ ‘چار سو پار’ کے مودی کے نعرے سے جڑے ملک کے آئین اور جمہوریت کے خاتمے کا خوف اوربڑھادیتا اور بی جے پی کی حالت مزید خراب ہوجاتی۔

ظاہر ہے کہ زمینی صورتحال کا جائزہ لینے میں مودی اور بی جے پی نے جو غلطی کی ہے اس میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی عبرتناک شکست کے بعد یہ لکھتے ہوئے کہ انتخابات جیتنے کے لیے اب ہندوتوا اور مودی کا نام کافی نہیں ہے، اس کے انگریزی ماؤتھ پیس  ’آرگنائزر‘ نے بھی کہا تھا کہ ہندوتوا اور مودی کا نام تب ہی کام کرتا ہے جب ریاستوں میں اچھی حکمرانی ہو۔ لیکن مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت کے بعد  ایسی کوئی سخت بات کہنے سے وہ گریز کرتا رہا۔ اب ضرور پھر سے وہ  اپناتیور دکھا رہا ہے۔

تو ملک کو کیا؟

آخر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مودی کے دس سال کے دور اقتدار میں آر ایس ایس کے سویم سیوکوں  نے تمام جمہوری تقدس کو پامال کرتے ہوئے نہ صرف مرکزی اور بیشتر ریاستی حکومتوں کی قیادت بلکہ اعلیٰ آئینی عہدوں اور اداروں پر بھی قبضہ کر لیا اور لگاتار ان کے وقار کو ختم کرنے میں بھی مصروف رہے، تو بھی  بھاگوت کو  جمہوری قدروں کی یاد نہیں آئی، انہوں نے کبھی یہ اشارہ نہیں دیا کہ آر ایس مطلوبہ ہندو راشٹر کے لیےجمہوری ہندوستان سےکبھی براہ راست  تو کبھی خفیہ دشمنی کی اپنی پرانی پالیسی سے گریز کرے گایا اپنے نقطہ نظر کو رجعت پسندی سے آزاد کرے گا۔

اگر وہ ‘منواسمرتی’ کے دلائل کے ساتھ دلتوں، پسماندہ طبقات، خواتین اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری ماننے کے اپنے بانی ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگیوار اور ‘گرو جی’ یعنی مادھو سداشیو گولوالکر کی سوچ کے دائرہ کار کو پار نہیں کرنا چاہتا تو اور کچھ بے سود ‘بھلی’ باتوں کی مدد سے اپنی جمہوریت کا ایک نیا بھرم پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے ذریعے مودی اور اس کی حکومتوں کے تکبر اور انا پرستی کو تنقید کا نشانہ بنا کر کیا حاصل کرے گا اور ملک کو ان سے کوئی امید کیوں رکھنی چاہیے؟ خاص طور پر جب ملک نے اس کے لیے باقاعدہ ایک طاقتور اپوزیشن کا انتخاب کر لیا ہے۔

ملک اس بھرم کا شکار بھی کیوں ہو کہ بھاگوت بھی اسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں جس کی اپوزیشن کرتا ہے۔ جبکہ سنگھ کےمتبادل  بالکل واضح ہیں – ہندو جمہوریت، کارپوریٹی جمہوریت،ان  دونوں کا مرکب یا آئینی جمہوریت؟