آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ بھگوان کی نظر میں سب برابر ہیں اور اس کے سامنے کوئی ذات یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ سب پنڈتوں نے بنایا ہے، جو غلط ہے۔
سرسنگھ چالک موہن بھاگوت۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ذات پات کے نظام (کہنا چاہیے: مسئلہ) کے بارے میں گزشتہ دنوں
جو کچھ بھی کہا – جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ سماج میں اعلیٰ اور ادنیٰ بھگوان نے نہیں بلکہ پنڈتوں نے بنائے ہیں – اور جس کو صرف بھاگوت کا بیان بنانے کی ان کے سویم سیوکوں اور پرچارکوں کی کوششوں کے درمیان ایودھیا کے کچھ ‘سنت مہنت’، ہندو مہاسبھا اور شنکراچاریہ اوی مکتیشورانند اس کو لے کر جس طرح کی ‘مخالفت’ اور ‘ڈسکورس’ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر اس میں کوئی حقیقت ہے تو بس یہ کہ ایک جھوٹ کو سچ بنانے کے لیےسو جھوٹ بولنے کی راہ پر چلتے ہوئے وہ سب کے سب اپنے ہی تضادات میں پھنسے جا رہے ہیں اور اپنی شرم (اگر اب بھی ہے تو) بھی بچانے سے قاصر ہیں۔
اسی لیے بھاگوت کو یہ ‘وضاحت’ پیش کرنی پڑی کہ اعلیٰ اور ادنیٰ کے زمرے بنانے کے لیے انہوں نے پنڈتوں یعنی دانشوروں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا، نہ کہ برہمنوں کو، جبکہ رام چرت مانس پر تازہ ترین تنازعہ کے ‘ہیرو’ سماج وادی پارٹی کے لیڈر سوامی پرساد موریہ ان کے بیان کو ڈھال بنا کران کی زبان یا گلا کاٹنے کی دھمکی دینے والے عناصر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اب اگر ان میں ہمت ہے تو بھاگوت کے خلاف بھی اسی طرز پرمنہ کھول کر دکھائیں۔
دوسری طرف، جو لوگ بھاگوت کے مطالعہ، تحقیق اور علم پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے گلا پھاڑکرذات پات کے نظام یا اس کی بنیاد پر اونچ نیچ کو قدرت کاقانون قرار دینے پر بضد ہیں، ان سے تو خیر اتنا ہی پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ بے شرمی سے لوگوں کووہ بات کیوں بتا رہے ہیں، جس پر شرمندہ ہوتے ہوئےچھپانے کی بات سمجھ کرانہیں اس پر پڑی راکھ کوہٹانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
صرف یہی نہیں، بھاگوت کا ‘شکر گزار’ ہونا چاہیے کہ انھوں نے اونچ نیچ کے لیے پنڈتوں کوہی ذمہ دار ٹھہرایا اور مسلمانوں کو بخش دیا، جنہیں وہ اور ان کے پریورا کے افراد عموماً تمام خرافات کی جڑ قرار دیتے رہتے ہیں۔
سچ پوچھیں تو ان سب کی اس پسماندہ ‘سوچ’ پر صرف ہنسی آ سکتی ہے یا اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی اس ‘سوچ’ سے پہلے ملک میں ذات پات کے نظام پر اتنے زاویوں اور اتنی طرح سے مطالعہ کیا جا چکا ہے کہ جو کوئی بھی نیا مطالعہ شروع کرنے کی طرف قدم بڑھاتا ہے، اس کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں اس کا مطالعہ کسی پرانے مطالعے کی محض تکرار بن کر نہ رہ جائے۔
باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے نہ صرف آزادی سے کئی دہائیوں قبل ذات پات کی ابتدا اور ترقی کا سائنسی وسماجی مطالعہ کیا تھا بلکہ 1936 میں لاہور میں جات پات توڑک منڈل کے کنونشن کے صدر کے عہدے سے اپنی مجوزہ تقریر میں (جس کو روکنے کے لیے مذکورہ کنونشن کو ردکر دیاگیا تھا اور جو بعد میں ‘اینہلیشن آف کاسٹ’کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی ) ذات پات کے خاتمے کے لیے بہت سے ضروری اقدامات بھی بتا دیے تھے۔
انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ایک آزاد طبقے کو بند طبقے میں تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھنے والے جس نظام نے بچیوں کی شادی،تا عمر بیوگی اور بیواؤں کو جلا کر مارنے کے لیے ستی جیسی غیر انسانی رسم کا آغاز کیا، اسی نے ذات پات کے نظام کو بھی فروغ دیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ انھوں نے ذات پات کے خاتمے کے لیے اقدامات تجویز کیے تھے، لیکن انھیں یقین نہیں تھا کہ ان کی تجاویز کو ذات پرستوں یا ذات پات کے نظام سے فائدہ اٹھانے والے بہت آسانی سے لاگو ہونے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرکار انہوں نے ہندو کے طور پر نہ مرنے کے اپنے عہد پر عمل کرتے ہوئے بدھ مت کو اختیار کر لیاتھا۔
آزادی کے اب تک کے 75 سال گواہ ہیں کہ اس دوران ملک میں جیسی بھی اور جو بھی حکومتیں آئیں، خواہ وہ کسی بھی جماعت یا نظریے کی ہوں انہوں نے ذات پات کو مٹانے کے لیےکسی قوت ارادی اور عزم کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ذات پات کو مٹانے کی کوشش کرنے والوں کی راہیں کٹھن ہی کی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں موہن بھاگوت اور ان کے پریورا کے لوگوں کو ایک ایسا ڈسکورس قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے، جس کے پیچھےکا وہ رد انقلابی منصوبہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،جس کے پورے ہونے پر ذات کی بنیاد پر کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک سے نجات کی آئینی ضمانت نہ صرف ناکام ہو جائے گا، بلکہ اس طرح کے امتیاز کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گا۔
اگریہ منصوبہ نہ ہوتا تو آج وہ ذات پات کے خاتمے کے ابھی تک ناقابل حصول مقاصد کو حاصل کرنے کے ذرائع پر بحث کر رہے ہوتے، نہ کہ اس بات پر کہ کس نے ذاتیں پیدا کیں اوران کی بنیاد پر اونچ نیچ کے برتاؤ کو کوڑھ کس نے بنایا۔ ارے بھائی، جس نے بھی بنایا، آج ضروری تو یہ ہے کہ اس کوڑھ کو ختم کرنے کے لیے وقت کی پابندی کے ساتھ پروگرام بنایا جائے اور اپنے آپ کو اس کے مقاصد کے لیے وقف کر دیا جائے۔
لیکن وہ لوگ ایسا کیوں کرنے لگے، جن کو ملک میں منوسمرتی کی حکمرانی چاہیے یا جو یہ سمجھتے ہیں کہ ذات پات اور ان پر مبنی اونچ نیچ خود بھگوان نےبنائی ہیں اور شریمد بھگوت گیتا جیسی کتابوں میں بھگوان نے اپنی زبان سے صاف صاف اس کا اعلان کیا ہے۔اپنے سیاسی مفادات کے لیے وہ دن میں کتنی ہی بار مہاتما گاندھی کا نام کیوں نہ لیتے ہوں، ان کے راستے پر چلنے کی ہمت تو کرنے سے رہے۔
یہ سمجھنے سے بھی کہ مہاتما، ورن ویوستھا(ذات کے نظام اور اس کے اونیچ نیچ جس کا المناک نتیجہ ہیں) کے حامی ہونے کے باوجود ذات پات کے نظام کی اونچ نیچ کے خلاف کسی بھی شاستر کا کوئی نظام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ چھواچھوت ایشور کے تئیں جرم ہےاور وہ جرم نہیں ہے، تو پھر کچھ بھی جرم نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار بنارس کے پنڈتوں نے مہاتما سے کہا کہ ان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ چھواچھوت شاستر کے مطابق نہیں ہے اور وہ ان کے سامنے ثابت کریں گے کہ یہ شاستر کے مطابق ہے۔ اس پر مہاتما نے انہیں اس کاموقع بھی دیا۔ لیکن جب ان پنڈتوں نے اپنی کتابوں کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا تو انہوں نے ان سے کہا، ‘اب میں پھر کہتا ہوں کہ چھواچھوت ایشور کے خلاف جرم ہے اور اس جرم کوکسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔’
لیکن ان کی شہادت کے 75 سال بعد اور ہماری آزادی کے ‘امرت کال’ میں بھی یہ اتنا ‘قابل قبول’ ہے کہ اگر کوئی دلت طالبعلم مٹکےسے پانی پی لیتا ہے تو اونچی ذات کا ٹیچر اسے پیٹ پیٹ کر مار دیتا ہے، اور تو اورانٹر کاسٹ میرج کرنے والے جوڑے کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا، تو کیا کسی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ آٹھ سال قبل اس دنیا سے رخصت ہونے والے دلت مفکر پروفیسر تلسی رام نے ذات پات کے نظام کو ایٹم بم سے زیادہ مہلک کیوں قرار دیا تھا؟
راقم الحروف کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا، ‘اس ملک میں ذات پات کے نظام کے خاتمے کے بغیر کوئی سماجی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ کسی شہر پر ایٹم بم گرائیں گے تو وہ اس کی صرف ایک یا دو نسلوں کو ہی تباہ کر سکے گا۔ لیکن یہ ہمارے معاشرے پر مسلط ذات پات کا نظام ہے جو نسل در نسل امکانات کا قتل عام کرتا آ رہا ہے۔
وہ کئی لوگوں کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی فراہم کردہ نت نئی ایجادات کے استعمال سے طرز زندگی میں جو تبدیلیاں آئیں گی وہ سماجی تبدیلی کو سمت دینے میں بھی حیرت انگیز کام کریں گی یا یہ کہ محض ترقی ہی دلتوں اور پسماندہ افراد کےسو بیماریوں کی دوا ثابت ہوں گے۔
وہ کہتے تھے کہ سائنسی ایجادات یا مادی کامیابیوں کا کام سماجی تبدیلی لانانہیں ہے۔ اس تبدیلی کے لیے اجتماعی شعور ضروری ہے اور ہمیں اس پر انحصار کرنا پڑے گا۔ آج کے حالات میں جب ان کا یہ قول مکمل طور پر درست ثابت ہو چکا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل مذکورہ اجتماعی شعور کو بیدار کرنے کے بجائے اسے آلودہ کیا جا رہا ہے۔ آلودہ شعور کی موسلا دھار بارش میں رحیم کے لفظوں میں کہیں تو،مینڈک بولنے والا بن گیا ہے اور کوئل نے خاموشی اختیار کر لی ہے؛
پاوس دیکھئی رحیم من کوئل سادھے مون
اب دادر بکتا بھئے، ہمئے پوچھت کون؟
اچھی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود کچھ لوگ، دبی زبان میں ہی سہی ، موہن بھاگوت سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا وہ اونچ نیچ سے متعلق اپنے تازہ الہام کے بعدکسی دلت ذات کے سویم سیوک کو سرسنگھ چالک کے عہدے کے لیے اپنا جانشین بنائیں گے، جو اب تک استثنیٰ کو چھوڑ کر مہاراشٹر کے چت پاون برہمنوں کے لیے ہمیشہ سے محفوظ رہا ہے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)